تحریر: ملک شفقت اللہ
دسمبر کا مہینہ، سن 1992 جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔ وہاں اس وقت بھی وہ مورتیاں موجود تھیں جو 1949 میں اسی مہینے میں ایک رات زبردستی وہاں لا کر رکھی گئی تھیں۔
اس واقعے کے بعد انتظامیہ نے مسجد کو مقفل کر دیا اور وہاں نماز کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ انتہا پسند اور جنونی ہندوؤں کے مختلف گروہوں اور سنگھ خاندان کی ایک سیاسی تحریک کے نتیجے میں یکم فروری 1986 کو بابری مسجد کے دروازے عام پوجا پاٹ کے لیے کھول دیے گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارتی سماج میں فرقہ وارانہ تعصب کا دیو برآمد ہوا۔ بابری مسجد کے سینے پر رام مندر کی تعمیر کے لیے سنگھ خاندان کی تحریک اس خطرناک موڑ تک بھی آگئی جب ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ یہ 6 دسمبر 1992 کا سانحہ ہے۔
بھارت میں ان دنوں سپریم کورٹ کے بابری مسجد کیس کے فیصلے کا چرچا ہو رہا ہے۔ عدالت نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور اس پر دھاوا بول کر منہدم کرنے کے واقعات کو تو غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ہے، مگر جنونی ہندوؤں کے اس فیصلے پر ٹکی نظریں اور محکمۂ آثار کی کھدائی کی بنیاد پر جو فیصلہ سنایا ہے وہ مندر کی تعمیر کے حق میں ہے۔ تاہم عدالت نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے اس مقام پر موجود کسی مندر کو مسمار کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ وہاں بابری مسجد ہی تھی جس میں نماز ہوتی تھی، لیکن وہاں ہندو بھی پوجا کے لیے جاتے تھے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نماز کا سلسلہ منقطع ہو جانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔ عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار نے نہیں بتایا کہ کسی مندر کو توڑ کر یہاں مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ راصل ہندوؤں کے نظریات ہیں۔
عدالت نے ہندوؤں کے ایک عقیدے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک بار ارادت قائم ہو جائے تو عدالت کو ایسے معاملوں سے دور رہنا چاہیے اور دستوری نظام کے ماتحت عدالت کو مذہبی عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالت نے اس مقدمے کی سماعت سے قبل یہ واضح کیا تھا کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی کے نظریات یاعقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حقِ ملکیت کی بنیاد پر کرے گی۔
اگر اس فیصلے کا جائزہ غیر جانب داری سے لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جنونی ہندوؤں سے خوف زدہ اور ان پر بی جے پی سرکار کا قبضہ ہے۔ ہندوتوا کا نعرہ لگا کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بدترین مثالیں اگر کہیں دیکھنے کو مل رہی ہیں تو فلسطین میں اسرائیلیوں کے بعد بھارت سب سے آگے ہے۔
سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اس طرح ملک میں انتشار پھیلانا اور پھر خود ہی اس پر قابو پانے کے نام پر ہتھیار بند ہو جانے کو کیا کہا جائے گا۔ یو پی میں بی جے پی کے ساتھ شیوسینا نے حکومت بنانے سے انکار کر دیا ہے اور کانگریس کے ساتھ الحاق کیا ہے، ادھر پاکستان نے کرتار پور راہداری کھول کر دنیا کی نظروں میں امن پسند اور اقلیتوں کی محافظ حکومت کا جو امیج قائم کیا ہے، اسے متنازع بنانے کے لیے دونوں اقدام کیے گئے ہیں۔
پھر چلتے ہیں عدالت کے فیصلے کی طرف جس کا سب سے اہم پہلو بابری مسجد کے انہدام کو مجرمانہ فعل قرار دینا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ سیکولر ازم ہندوستان کے آئین کی بنیادی روح ہے۔ بابری مسجد سازش کیس کی تحقیقات کرنے والے جسٹس من موہن کی رپورٹ میں اس انہدام کو ایک منصوبہ بند سازش قرار دیا گیا تھا۔ ان سے پہلے ایک رپورٹ جسے ون جج کمیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں بھی واضح کیا تھا کہ اتنے سال سے قائم مسجد کو کرپانوں اور ہتھوڑوں سے توڑا تو جاسکتا ہے لیکن اسے یوں مکمل طور پر مسمار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اور اس میں بارود بھی استعمال کیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت سپریم کورٹ میں بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت شروع ہونے والی تھی تو جسٹس من موہن کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ عدالت حقِ ملکیت کا مقدمہ فیصل کرنے سے پہلے بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کرے جو زیادہ اہم ہے۔
اور اب جب کہ سپریم کورٹ نے ہی اسے مجرمانہ عمل قرار دے دیا ہے تو اسے ان لوگوں کے خلاف سی بی آئی عدالت میں جاری مقدمے پر بھی غور کرنا چاہیے جنھوں نے بابری مسجد شہید کی تھی۔ بابری مسجد انہدام کیس سست روی کاشکار رہا ہے جس میں سنگھ خاندان کے تقریبا چالیس افراد پر فردِ جرم عائد ہوچکی ہے۔ بھارتی مسلمان بابری مسجد تو کھو چکے ہیں لیکن اُن لوگوں کے خلاف کارروائی ضرور چاہتے ہیں جنہوں نے دستور اور قانون کو تماشا بناتے ہوئے بابری مسجد کو دن کے اجالے میں شہید کیا اور یوں ہندوستان میں مسلمانوں کو ذبح کرنے کی ابتدا ہوئی۔