The news is by your side.

قیس سعید، اسرائیل اور غداری کا مقدمہ!

تحریر: ملک شفقت اللہ

1957 تیونس کی آزادی کا سال تھا۔ اس وقت سے لے کر 2011 تک دو شخصیات ہی ریاست اور قوم کی قسمت کے فیصلے کرتی رہیں۔ پہلے حبیب ابو رقیبہ اور پھر زین العابدین بن علی نے حکم رانی کی۔

 

14 جنوری 2011 کو عوامی تحریک کے نتیجے میں بن علی کے اقتدار کا سورج غروب اور پارلیمانی عہد کا آغاز ہوا۔ اب قیس سعید تیسرے منتخب صدر ہیں۔

تیونس ہی وہ ملک ہے جس کی عوامی تحریک کے اثرات خطۂ عرب کی دیگر ریاستوں پر آج نظر آتے ہیں۔ تیونس پُرامن طریقے سے انتقالِ اقتدار کی تاریخ رقم کررہا ہے۔ بن علی کے بعد پہلی منتخب حکومت تحریک نہضہ کی تھی۔ خدشہ تھا کہ اس کے خلاف سازشوں کے نتیجے میں وہاں مصر جیسا حال نہ ہو، لیکن خدشات کے باوجود تیونس کی لڑکھڑاتی جمہوریت اب نسبتاً مضبوطی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں 26 امیدوار میدان میں تھے۔

پہلے 9 امیدواروں نے چار فی صد یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ قیس سعید 77 فی صد ووٹ لے کر سرِ فہرست رہے۔ سیکولر نظریات کے حامل نبیل القروی دوسرے جب کہ بڑی سیاسی قوت النہضہ کا امیدوار عبدالفتاح تیسرے نمبر پر رہا۔ نہضہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت سمجھی جاتی ہے، اس کے باوجود اس کا امیدوار پیچھے رہا جو سبھی کے لیے باعثِ حیرت تھا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ملک اور خود تحریک نہضہ کی بھلائی اسی میں تھی۔ مصر میں گزشتہ آٹھ برس سے مخدوش حالات اور خوں ریز معرکوں کی وجہ سے تحریکِ نہضہ انتہائی محتاط رہی ہے۔

 

قیس سعید جیسا ایک آزاد امیدوار جو ملک کی دینی اساس، قانون کی بالادستی اور امت کے مسائل پر دو ٹوک مؤقف رکھتا ہو اور جس پر سیاسی گدی کو بچانے اور ماضی کے تسلسل و روایات کو برقرار رکھنے کا بوجھ یا ذمہ داری بھی نہ ہو، موجودہ تیونس کے لیے ایک بہترین انتخاب ثابت ہو سکتا ہے۔

تیونس کے نو منتخب صدر ڈاکٹر قیس سعید کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ ساری زندگی قانون پڑھاتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارتی عہدے پر انتخاب لڑا۔ ان کا انتخابی میدان میں اترنا اور 77 فی صد ووٹ لے کر کام یابی نے بھی دنیا کو حیرت زدہ کیا جس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً قیس سعید ایک آزاد امیدوار تھے، اور کسی سیاسی جماعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی مہم انتہائی سادگی سے چلائی۔

ان کے مخالف امیدواروں نے بھاری رقم انتخابی مہمات میں جھونکی۔ اس ماہرِ قانون کا عوام سے کوئی خاص تعارف نہیں تھا، سوائے اس کے کہ وہ کبھی کبھار ٹی وی پروگرام میں کسی معاملے پر قانونی رائے دیتے نظر آجاتے تھے۔ قیس سعید فصیح عربی میں، سپاٹ چہرے کے ساتھ اپنا نکتۂ نظر پیش کرتے دکھائی دیتے، لیکن انھیں اپنی انتخابی مہم میں تیونس کے نوجوانوں کی بھرپور حمایت و مدد حاصل رہی اور وہ دیگر پچیس امیدواروں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ بااصول اور قانون پسند ہونے کی وجہ سے مخالفین بھی ان کا احترام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ نہضہ نے صدارتی مرحلے کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی اپنی مجلس شوریٰ سے مشاورت کے بعد قیس سعید کی حمایت کا اعلان کردیا۔

صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے سے پہلے پارلیمانی انتخاب ہوئے تو قیس غیر جانب دار رہے۔ تمام پارٹیوں نے اپنے منشور پر انتخاب میں حصہ لیا اور 217 کے ایوان میں تحریکِ نہضہ باون نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی۔ نبیل القروی کی جماعت قلبِ تونس 38 نشستوں کے ساتھ دوسرے جب کہ پانچ مزید جماعتیں دس یا اس سے زیادہ نشستیں لے سکیں۔ حکومت سازی کے لیے ایک سو نو ووٹ اکٹھے کرنا آسان کام نہیں تھا، لیکن تحریکِ نہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی نے اس حوالے سے امید ظاہر کی۔

دانش ور اور سنجیدہ و باشعور طبقہ پُرامید ہے کہ قیس سعید ایک بااصول صدر ثابت ہوں گے۔ ادھر امیدوار نبیل القروی کرپشن کے سنگین الزامات میں گرفتار تھے، اور خود کسی مہم میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔ ان کی جانب سے انتخابی مہم میں رکاوٹوں اور موقع نہ دیے جانے کا الزام سامنے آیا جب کہ قیس سعید کی کام یابی کے بعد اسلام مخالف اور مغربی طاقتوں نے نبیل القروی کے حق میں بولنا شروع کر دیا اور ووٹنگ سے چند روز پہلے وہ ضمانت پر رہا ہو گئے اور اپنی انتخابی مہم میں شریک ہوئے۔

ادھر قیس سعید نے صہیونی ریاست کے بارے میں دو ٹوک مؤقف دے کر سبھی کے دل جیت لیے ہیں اور اب یقیناً انھیں اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے کڑی مخالفت اور کئی رکاوٹوں کو بھی جھیلنا پڑے گا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوشش کریں گے تو قیس سعید نے کہا کہ لفظ بحال کرنا ہی غلط استعمال کیا گیا ہے، اس کے لیے لفظ غداری برتنا چاہیے۔ اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے کہاکہ جو بھی کسی ایسی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے، جس نے گزشتہ صدی سے ایک پوری قوم کو دربدر کر رکھا ہے، خائن اور غدار ہے اور لازم ہے کہ اس پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ ان کا کہنا تھاکہ تعلقات کیسے معمول پر آسکتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس غاصب اور ناجائز ریاست کے ساتھ مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم یہودیوں کے تمام حقوق کی حفاظت اور خوب برتاؤ کریں گے، لیکن اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ہرگز نہیں۔ یعنی وہ اسرائیلی پاسپورٹ پر ہرگز تیونس میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل نے پوری ایک قوم کو اس کے وطن سے نکال کر دربدر کر دیا ہے، وہ آج بھی خیمہ بستیوں اور کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہم ایسے دشمن کے ساتھ روابط قائم نہیں کرسکتے۔ وہ ایک یہودی کی حیثیت سے آئیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن اسرائیلی شہری کی حیثیت سے قابلِ قبول نہیں۔

قیس سعید روایات کے امین اور بااصول ہیں۔ عالمی امور اور خطے کی صورتِ حال پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ جس دبنگ لہجے میں انھوں نے اسرائیل سے تعلقات کی بابت اظہارِ خیال کیا ہے، اس نے اسلام مخالف قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی عالمی سربراہوں اور دنیا کے سامنے تقریر میں جس طرح اسلام اور اس کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہوئے مخالفت اور پروپیگنڈے کی نفی کی تھی، وہ بھی ہمارے سامنے ایک مثال ہے۔

اب تیونس کی قیادت نے بھی دنیا کو بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور اسرائیل کی من مانیوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے اور فلسطینیوں کو ان کا حق دینا ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کی حامی اسلام مخالف قوتیں قیس سعید کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں