The news is by your side.

سگ گزیدگی کے واقعات: متأثرین، لواحقین اور ویکسین!

نادیہ حسین

قبضہ، بھتا، واٹر ٹینکر، ڈرگ، ٹرانسپورٹ اور دیگر تمام مافیا کے بعد اب ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ شہرِ قائد سمیت سندھ میں کتے بھی گویا غنڈہ گردی اور بدمعاشی کررہے ہیں، لیکن کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں. کراچی سمیت سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں سے ہر دو تین روز میں سگ گزیدگی کا ایک واقعہ ضرور سامنے آرہا ہے۔

آوارہ کتوں نے دہشت پھیلا رکھی ہے جو غول کی صورت گلی محلوں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور جب چاہتے ہیں کسی شہری پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ کتوں نے بدمعاشی اور کاٹنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، یقیناً حکومت اس کی اجازت نہیں دیتی. اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر غیرقانونی اور دہشت گردی ہے۔

کتوں نے انسانوں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی اور مافیا بننے کا جو راستہ اختیار کیا ہے، ہر سیاسی جماعت اور خود عوام بھی اس کی پُرزور مذمت کرتے ہیں، لیکن شہری پوچھتے ہیں کہ اس بدمعاشی اور کتا مافیا کے خاتمے کے لیے حکومت اور انتظامیہ کیا اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے کب کوئی عملی کوشش نظر آئے گی؟

تازہ خبر یہ ہے کہ صوبائی حکومت آوارہ کتوں کی افزائشِ نسل روکنے اور پاگل کتوں کے خاتمے کے لیے ایک پروگرام شروع کررہی ہے جس کا آغاز کراچی کے ضلع وسطی سے ہوگا۔ اس پروگرام کا آغاز شہری حکومت، متعدد غیر سرکاری تنظیموں اور متعلقہ سرکاری اداروں کی مدد سے کیا جارہا ہے۔ پروگرام کے مطابق 5 لاکھ کتوں کو ویکسین دی جائے گی اور ایک سال میں ان کی نس بندی کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ یہ پروگرام صوبے بھر کے لیے ہے۔ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا یہ تو آنے والے دنوں میں سامنے آئے گا، مگر کتوں کو پکڑنا اور ایسا کوئی فیصلہ آخر حکومت کے لیے ایسا کون سا بڑا کام تھا کہ اتنے دن لگا دیے گئے۔

آج ہی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں لیاقت آباد میں ایک شہری آوارہ کتے کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب سندھ پولیس نے اگر اسے پکڑ لیا تو سب سے پہلے تو اس سے پستول کا لائنسس مانگے گی اور اس کے بعد شاید ‘‘کارِ سرکار’’ میں مداخلت پر اسے زنداں میں دھکیل دے۔ جی ہاں، کیوں کہ یہ بلدیاتی امور میں شامل ہے اور انتطامیہ کے پاس ہی کتوں کو ٹھکانے لگانے کا اختیار ہے۔ ہم تو کہتے ہیں وسائل بھی ہیں، بس ان کا جائز و درست اور بروقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال کے دوران میں کراچی سمیت سندھ بھر میں 21 افراد کتے کے کاٹنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ان ہلاکتوں کی وجہ اسپتالوں میں ویکسین کی عدم دست یابی تھی۔ ان واقعات میں زہر نے متأثرہ افراد کو مزید سانس لینے کی مہلت نہ دی۔ جب کراچی جیسے شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں ہی یہ ویکسین موجود نہیں تو سوچیے چھوٹے شہروں میں کیا حالت ہو گی جب کہ حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہو جس کی کارکردگی سے متعلق ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تمام صوبوں کے مقابلے میں یہاں صورتِ حال بدتر ہے۔

سندھ سرکار کا مؤقف بھی سامنے رکھتی چلوں۔ صوبائی حکومت کا اصرار ہے کہ تمام اسپتالوں میں ویکسین موجود ہے، یہ لواحقین ہیں جو متاثرہ فرد کو اسپتال ہی اس وقت لاتے ہیں جب انفیکشن پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ یوں سائیں سرکار اس معاملے میں ذمہ دار نہیں رہی۔ بات تو سولہ آنے درست ہے۔ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کتے تو مستقل مزاجی، آزادی اور بغیر کسی خوف کے لوگوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں، اور لوگ حکومت پر تنقید کررہے ہیں، مگر کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ حکومت بے چاری کیا کرے؟ کیا کتوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے؟ ان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرے؟ سیدھی سی بات ہے جس طرح عوام دوسرے بدمعاشوں اور مافیا سے نبرد آزما ہیں، اسی طرح اس ‘‘کتا مافیا’’ کا بھی مقابلہ اپنی مدد آپ کے تحت کرے۔

اب کچھ ان وجوہ اور عوامل پر بات کی جائے جو آوارہ کتوں کو گلی محلوں میں اکٹھا کر دیتے ہیں اور یہ ہمارے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ سادہ سی بات یہ کہ کوٸی بھی عام حیوان، جیسے کتا، بلی، چوہے اور پرندے وغیرہ اس جگہ اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں جہاں انھیں خوراک مل سکتی ہے۔ ہم اپنے گھر کا کچرا گلی محلوں میں، سڑک کے کنارے پھینک دیتے ہیں جس میں ہماری خوراک کا بچا ہوا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ گوشت، سبزی اور دیگر غذا ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ہر بازار اور سڑکوں پر موجود کھانے پینے کی دکانوں، ٹھیلوں اور بڑے بڑے ریستوراں سے بھی بچی ہوئی خوراک اور کھانے پینے کی چیزیں کسی بڑے سے خالی پلاٹ یا سڑک کے کنارے کچرا کنڈی تک پہنچ جاتی ہے جہاں یہ حیوان اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور پھر ہم پر جھپت پڑتے ہیں۔ یعنی یہ کتے ہمارا کھاتے ہیں اور ہمیں پر غراتے ہیں۔

آپ دیکھیں گے کہ کتے کچرا کنڈیوں کو اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں اور وہیں ان کا خاندان پروان چڑھتا ہے جو انسانوں کے لیے مصیبت اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔ حکومتی نااہلی اور بدانتظامی اپنی جگہ مگر شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ گلیوں اور خالی پلاٹوں کو کچرا کنڈی کے طور پر استعمال کرنا چھوڑ دیں اور ہر قسم کا کچرا اور گندگی اس کے لیے مخصوص جگہ پر لے جاکر پھینکیں۔ یعنی پہلے ہم اپنی ذمہ داری نبھائیں، اپنا فرض پورا کریں اور پھر حکومت سے شکایت کریں تو بات بنے گی جب کہ حکومت کا کام ہے کہ اسپتالوں میں ویکسین کی فراہمی یقینی بنائے اور اس حوالے سے حیلے بہانے، عذر تراشنے کی روایت ترک کر دے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ نہ ہی ہم ذمہ دار شہری ہیں اور نہ ہی ہمارے حکم راں ہم سے مخلص، مگر ایسا کب تک چلے گا؟

اگر ہمارے علاقوں میں کچرے اور گندگی کے ڈھیر لگے رہے تو آوارہ کتے بھی ان پر پلتے رہیں گے اور ہم یونہی خوف کا شکار رہیں گے۔ سوچیے اگر ہم نے اپنی روش نہ تبدیل کی تو کتے اپنی نسل بڑھاتے رہیں گے اور جب یہ کسی کو کاٹیں گے تو اسے جس اسپتال پہنچایا جائے گا وہاں حکومتی بیان کی حد تک تو کتے کے کاٹے کی ویکسین دست یاب ہو گی، مگر ورثا تاخیر سے اسپتال پہنچائیں گے تو ویکسین لگانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ دنیا سے چلے جانے کے بعد سگ گزیدہ کی موت کے اصل اسباب اور ذمہ داروں کا تعین سندھ سرکار کر دے گی۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں