The news is by your side.

سانحۂ پشاور: روشنی کا سفر جاری ہے!

تحریر: جنید شاہ سوری

ماؤں نے بچوں کی پیشانی چومی، پیار کیا اور اسکول روانہ کر دیا۔اسمبلی ہوئی، بچوں نے ترانہ پڑھا اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئے۔ اچانک زور دار دھماکا ہوا، سب سہم گئے۔ اسکول کے اندر گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے انھیں مزید خوف زدہ کر دیا۔ قاتلوں نے اسکول میں گھس کر معصوم کلیوں کو روند دیا، پھولوں کو مسل کر رکھ دیا۔

16دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے دہشت گردوں نے کئی ماؤں کے لختِ جگر ان سے چھین لیے۔ معصوم بچوں پر گولیاں برسائیں، سفاک دہشت گردوں نے قیامت برپا کر دی اور یوں 16 تاریخ کو طلوع ہونے والا سورج سوگوار گیا۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں 125 بچوں سمیت پرنسپل اور اساتذہ دیگر نے جام شہادت نوش کیا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ قوم نے دہشت گردی اور ہر قسم کے ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک ہونے کا عہد کیا۔ طلبا مایوس نہیں ہوئے، ہمت نہ ہاری اور دوبارہ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب یوں دیا کہ ‘‘میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے، بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے۔’’

اس روز شہید ہونے والے بچوں میں طالبِ علم حارث بھی شامل تھا۔حارث کے والد کا نام محمد نواز خان ہے۔ ان کا ایک بیٹا اسی روز موت کے منہ سے بچنے میں کام یاب رہا تھا، اس کا نام احمد نواز ہے۔ احمد نواز برطانیہ میں انتہا پسندی کے خلاف مہم میں شامل رہتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی غرض سے انھیں ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔

وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک علامت ہے۔ احمد نواز برطانیہ میں ہاؤس آف لارڈز، آکسفورڈ یونیورسٹی سمیت دو سو سے زائد تعلیمی اداروں اور مختلف ممالک میں خطاب کرچکے ہیں۔ احمد نواز کو نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور رکھنے کی مہم ‘‘ایکشن کاؤنٹر ٹیرر ازم’’ میں برطانیہ کے ساتھ سرکاری طور پر کام کررہے ہیں۔ احمد کو لندن کے ایڈوائزری بورڈ آف نیشنل ٹیرر ازم کونسل کا رکن نام زد کیا گیا ہے۔ انھیں برطانیہ اور یورپ کا ینگ پرسن آف دی ائیر، ایشیا انسپائریشن ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔

عمار اقبال بھی اس سانحے میں اپنے والدین کو ہمیشہ کے لیے روتا چھوڑ گئے۔ بارہ سالہ اسد عزیز بھی اسی روز دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ سولہ دسمبر کی صبح اسد عزیز کو اسکول جانے کی بہت جلدی تھی۔ یہ معصوم اس روز ناشتا کیے بغیر ہی اسکول کے لیے نکل گیا اور چند گھنٹوں کے بعد اس کی لاش گھر آئی۔

غازی محمد طلحہٰ علی بھی اس روز دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بنا اور اس کا چہرہ شدید متاثر ہوا۔ غازی اب چٹان جیسا عزم رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں ظالموں کا مقصد بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا، مگر ان کے عزائم خاک میں مل گئے کہ اب ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور علم کی روشنی پھیلا کر دہشت گردوں سے بدلہ لیں گے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد تین تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جس نے صوبائی حکومت کی سیکیورٹی کے حوالے سے کارکردگی پر سوال اٹھا دیے، مگر اب تک کیا ہوا اور کسے انصاف ملا؟

تحقیقاتی کمیشن کے ترجمان کے مطابق سانحہ آرمی پبلک اسکول کی جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے اور ایک سے دو مہینے میں رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کروا دی جائے گی۔ یہ شہدا کے والدین کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ خدا کرے کہ ملک اور قوم کو مکمل طور پر دہشت گردی سے نجات ملے اور شہدا کے والدین کے دلوں کو قرار آجائے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں