تحریر: شاہد انیق
یہ سال بھی تمام ہوا چاہتا ہے۔
ہر سال دسمبر کی چوکھٹ پر ایک سوال ضرور سَر پٹختا ہے اور وہ یہ کہ ہم نے اس برس کیا کھویا، کیا پایا۔
یقینا حقائق، ضرویات، تقاضے، طلب، رسد، اہداف کا تعین کرنے اور اعداد و شمار کے ذریعے اسے جاننے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کے لیے یہ سوال اٹھانا ضروری ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں یہ فقط ایک روایت اور لگے بندھے طرزِ فکر سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
ممکن ہے آپ مجھ سے متفق نہ ہوں مگر مجھے ایسا ہی لگتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ جاننے اور اس فکر میں دبلے ہونے کے بجائے اس پر کبھی غور نہیں کرتے کہ اس سال ہم نے کیا سیکھا جس سے اپنی سمت کا تعین کرنے، کوئی سنگِ میل عبور کرنے، منزل کو پہچاننے میں مدد ملے اور ہمارا کل شان دار اور روشن ہو۔
ہم یہ نہیں کھوجتے کہ دنوں کی کروٹ سے ہفتوں اور ہفتوں کے بطن سے جنم لیتے مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات نے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کس طرح متاثر کیا ہے۔ ہم ایک بہتر، روشن، مثبت، تعمیری اور بامقصد زندگی گزارنے میں گزرے ہوئے سال سے کس طرح مدد لے سکتے ہیں۔
اگر آپ میرے ان خیالات سے متفق ہیں تو اس حقیقت کو بھی قبول کر لیں کہ ہم ایک ہجوم کی صورت سال بہ سال آگے بڑھ رہے ہیں اور بس۔ یہ قوم سمت اور منزل کا تعین کیے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دن پورے کررہی ہے۔
غور کیجیے، کیا ہر سال صرف کچھ پانے اور کچھ کھو دینے کا حساب جوڑنا ایک قوم کے باشعور اور زندہ ہونے کا ثبوت ہوسکتا ہے؟
ترقی یافتہ اور مہذب اقوام سیکھنے، سمجھنے کو اہمیت دیتے ہوئے ہر سال کسی ہدف کے تعاقب میں آگے بڑھتی ہیں۔ ہم بات کریں امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھیں تو وہاں ہر سال مختلف شعبوں میں بہتری کے امکانات، اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کی عام مثالوں میں صنفی امتیاز، اجرتوں میں عدم توازن کا خاتمہ، صحت کی زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی، مختلف شعبوں میں تحقیقی کام اور ان سے دنیا کو فائدہ پہنچانا، خواندگی کی شرح میں اضافہ، غربت کا خاتمہ اور آلودگی جیسے سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے بات کرنا اور اس ضمن میں اہداف مقرر کرنا شامل ہیں۔
سماج کے مختلف شعبوں میں اگر ہم اپنی کمی، خامی، غفلت، کوتاہی اور نااہلی کی وجہ سے ہر سطح پر پستی اور ناکامی کا جائزہ لے کر اس سے سبق حاصل کریں اور اقوام عالم سے یہ سیکھیں کہ کیسے بدلتے ہوئے کیلنڈر کے ساتھ اپنا مقدر بھی بدلا جا سکتا ہے تو ہمارا مستقبل روشن ہوسکتا ہے، لیکن ہم شاید ابھی اس ڈگر پر نہیں آسکے ہیں۔
پاکستان کے عوام کرپشن، عدم مساوات، ناانصافی، آلودگی کے خلاف آواز ہی بلند نہیں کرنی ہے بلکہ سیاست سے لے کر سائنس کے میدان تک ہر سطح پر بہتری لانے کی کوشش بھی کرنی ہے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر اس کے لیے اہداف مقرر کر کے کام یابی کا سفر طے کرنا ہے۔
الغرض، صرف کیلنڈر نہیں ہمیں بھی بدلنا ہو گا۔ سال کے اختتام پر سود و زیاں کا حساب لگاتے ہوئے ان حالات و واقعات پر بھی نظر ڈالنا ہو گی جن میں ہمارے لیے کوئی سبق پوشیدہ ہے اور پھر غور و فکر کر کے اس کی روشنی میں آگے بڑھنا ہے۔