The news is by your side.

اپنے ہی درمیان جنسی درندوں کی موجودگی سے بے خبری بھی ایک بڑی خبر ہے!

سائرہ فاروق

اسکول کا استاد ہو یا کالج کا لیکچرار یا یونیورسٹی کا پروفیسر…. اگر وہ کسی طالب علم میں کشش محسوس کرتا ہے، اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتا ہے، دورانِ گفتگو چھوتا ہے، ہاتھ تھام کر بات کرتا اور کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے اور اسی طرح گال تھپتھپانے، چٹکی لینے کی کوشش کرتا ہے تو یہ مراحل طے ہو جانے پر ایک گدھ کی طرح سوچتا ہے کہ ‘‘شکار’’ نے تو کوئی خاص مزاحمت نہیں کی، تب وہ دلیر ہو جاتا ہے اور اپنے ذہن منصوبے بنانے لگتا ہے۔ اگلا قدم اسے مشکل نہیں لگتا، بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے اور وہ یہ مکروہ فعل انجام دینے کے لیے قدم بڑھا دیتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے شخص کے اردگرد رہنے والے، اس کے احباب، ساتھ کام کرنے والے جو اس کے معمولات اور اکثر اس کے جنسی رجحان سے بھی واقف ہونے کے باوجود اس کو مکمل طور پر نظر انداز کردیتے ہیں۔ جب وہ کسی تکلیف دہ واقعے اور فعلِ بد کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا یہ لوگ اپنے ضمیر کو مطمئن کر پاتے ہیں، کیا یہ خود کو ایک حد تک شریکِ جرم نہیں تصور کرتے؟

جب تک سماج کا ہر فرد بہتری کے لیے اپنا فعال کردار ادا نہیں کرے گا تو ایسے درندے کارروائی کے بعد ہی پکڑے جائیں گے، اس سے پہلے نہیں۔ یاد رکھیے کہ جنسی درندہ کسی غار میں نہیں رہتا جو رات کے وقت پہاڑوں سے اترے اور کسی کو شکار کر کے لوٹ جائے۔ ایسے آوارہ ذہن اور عیاش انسان آپ کے اور ہمارے درمیان ہی موجود ہیں اور ہم سے میل جول بھی رکھتے ہیں۔ اس کے شب و روز ہمارے سامنے گزرتے ہیں۔ اس کی سوچ، رویے اور گفتگو کا نامناسب اور گھٹیا انداز اور جنسی اشارے ہمارے سامنے ہوتے ہیں، لیکن ہمارا اعتبار ہمیں یہ ساری علامات نظر انداز کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔

ہم کسی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کرتے کہ وہ درحقیقت جنسی درندہ بن چکا ہے۔ ایسا کوئی بھی شخص جو غالباً کسی بھی رشتے میں تمیز کرنے کا اہل نہ رہے تو پھر اس کے ساتھ نرمی کیوں برتی جائے؟ بدقسمتی سے ہم آنکھیں بند رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ آخر ایسے کسی انسان کے بَر وقت علاج کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ گھر یا کسی ادارے میں جہاں ایسا درندہ آزادانہ گھوم پھر رہا ہوتا ہے ہم اس کی عادات، رویوں اور رجحانات کو جان کر بھی اس سے کیوں نہیں چوکنا رہتے؟

کیا ہم ان حادثوں کا انتظار کرتے ہیں جو پورے سماج پر داغ ہیں؟ کیا بحثیت قوم ہم حادثوں کے اتنے دلدادہ ہو گئے ہیں کہ جب تک کوئی واقعہ نہ ہوجائے ہم نہیں جاگتے۔

اگر ہم بے حسی کی اس منزل پر پہنچ گئے ہیں تو پھر یہ طے ہے کہ ہم ہی اپنی بربادی کا سامان کر رہے ہیں اور اب ایسے ہر بدترین اور افسوس ناک واقعے کے بعد واویلا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

جنسی زیادتی کوئی قانونی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سماجی مسئلہ ہے جو واقعی اب ایک خطرہ بن کر ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ یاد رکھیں بچے ہمارے سماج کا مستقبل ہیں۔ یہ کوئی ریوڑی نہیں جو چبائی اور نگل گئے۔
ایک بچے پر ہونے والا جنسی حملہ یا اس کا ریپ جہاں اسے جسمانی طور پر نقصان پہنچاتا ہے، وہیں ذہنی اور جذباتی نشوونما کے ساتھ معاشرے میں بھی اس کے لیے مسئلہ بنتا ہے اور یہ بدترین بگاڑ لاتا ہے۔

بچے ہمارا مستقبل ہیں اور کوئی سماج یہ نہیں چاہتا کہ اس کا آنے والا کل ذہنی اور جسمانی عوارض کا شکار ہو۔ ٹوٹا پھوٹا اور شکستہ ہو۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات برداشت نہیں کیے جاتے اور ان کی روک تھام اور اس حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں۔

ایسے واقعات میں کمی لانے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے سماج کے ہر فرد کو باشعور بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ جنسی درندے کی پہچان کرسکے اور اپنے بچوں کو بچاسکے۔

یہ بھی درست ہے کہ قانون کے پاس کوئی ایسا آلہ اور کسی چراغ کا جن تو ہوتا نہیں کہ کسی انسان کے بدنیت ہونے اور اس کے کسی ممکنہ فعل کی پیشگی اطلاع دے سکے، لہذا یہ آپ کا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یاد رکھیے کہ قانون ایسے ذہنی بیمار اور مجرم کو پکڑتا ہے اور سزا بھی دیتا ہے، لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ آزاد کردیے جاتے ہیں اور پھر ہمارے درمیان آکر رہنے لگتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ان کی ذہنی حالت اور رجحانات کو بدلنے کے لیے نفسیاتی ماہرین کی مدد لینے اور بحالی کے مراکز کا تصور موجود نہیں ہے۔ اس لیے رہائی کے بعد ان لوگوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ اسی میں ہماری فلاح ہے اور اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر ہی ہم اپنے بچوں کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں