تحریر: محمد راشد
معاشرے کے بے حس افراد میں اپنا شمار نہ کروائیں، آپ کا چھوٹا سا قدم، ایک کوشش کسی بچے کو یتیم ہونے سے بچا سکتی ہے!
اپنے خیالات اور جذبات کو تحریر کرنے سے پہلے کچھ وقت اس شش و پنج میں مبتلا رہا کہ لکھوں یا نہیں؟ کیوں کہ ایسے واقعات تو روزانہ کی بنیاد پر ہمارے معاشرے میں، ہمارے پاس پڑوس میں ہی تو رونما ہوتے ہیں، لیکن ہم کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کرتے، چند روایتی جملے، مشینی انداز میں افسوس کا اظہار کرکے اپنی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ کیا ہم نے اپنے احساسا ت کو زمین میں دفنا دیا ہے یا پھر ہماری آنکھیں، ہمارے کان ایسے مناظر دیکھنے اور سننے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہمارے دل پر چوٹ نہیں لگتی۔ جہاں کچھ برا ہو، اسے نظر انداز کر دو، آگے بڑھ جاؤ والی بات ہے۔
احساس نے ذرا کروٹ لی تو یہ سوچ کر کوشش کرنے کی ٹھانی کہ پرندے کی چونچ میں سمایا پانی نمرود کی لگائی ہوئی آگ کو بجھانے کے لیے بظاہر کچھ نہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس چڑیا کی کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول کیا اور نمرود کی آگ کو گل و گلزار کر دیا۔ یعنی کوشش بہرحال کرنا چاہیے۔
گزشتہ دنوں روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک باپ نے محض اس لیے موت کا انتخاب کیا کہ وہ اپنی بچوں کے لیے گرم ملبوسات خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ اس کے بچے نے سردی سے بچنے کے لیے گرم لباس کا تقاضا کیا تھا۔ گدھا گاڑی چلا کر اپنے خاندان کی کفالت کرنے والا یہ شخص گزشتہ تقریبا تین ماہ سے بے روزگار اور مالی طور پر محتاج تھا۔
شہر میں سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور جب ایک معصوم نے اپنے باپ سے گرم ملبوس کا تقاضا کیا تو وہ یہ برداشت نہ کرسکا۔ پیسے تو اس کے پاس تھے ہی، اس فرمائش یا تقاضے پر شاید بچے کو مطمئن کرنے اور بہلانے کے لیے کوئی جملہ، کوئی بات بھی اس کے ذہن میں نہ آسکی۔ اس نے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گیا۔
یہ سطور تحریر کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اس مزدور کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت یا ہم سب؟
اس مزدور کی موت درحقیقت اسی ایک انسان کی موت تصور کی جائے یا پھر ایسے دیگر واقعات کو دیکھیں تو ہم یہ کہیں کہ یہ اُس ہم سائے، ان عزیزوں اور رفقا کی بھی موت ہے جو حقوق العباد کا چرچا کرتے اور اس حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرتے نہیں تھکتے؟ اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت پوری نہ کرنے والے اس غریب مزدور کی موت کا ذمہ دار وہ خود ہے یا پھر وہ لوگ جنھوں نے عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔
آج کے حکم راں شاید حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ خلافت بھول گئے ہیں جس میں ایک جانور کے بھی بھوک و پیاس سے مر جانے پر جواب دہی کا خوف رہتا تھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم لوگ ہوٹل پر بیٹھ کر ایک وقت میں متعدد بار چائے پی کر اس کی قیمت تو ہنستے کھیلتے ادا کردیتے ہیں، مگر اسی ہوٹل کے باہر اور اطراف میں امداد کے منتظر مجبور افراد کو دس روپے دینے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔
ان سطور کے ذریعے گزارش ہے کہ سماج کا ہر فرد اپنے منصب، رتبے اور اپنی حیثیت کا لحاظ رکھتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر انسانیت کا درد محسوس کرتے ہوئے معاشرے کے مجبور، نادار اور ضرورت مند شہریوں کی خبر گیری اور خیر خواہی کے لیے ضرور کچھ کرے۔
کوشش کیجیے کہ آئندہ کوئی باپ اپنی اولاد کی ضرورت پورا نہ کرنے پر دل برداشتہ ہو کر موت کو گلے نہ لگائے۔ کوئی بچہ ایک اونی ملبوس اور گرم چادر کی آرزو میں باپ کے سائے اور اس کے ہاتھوں کی انمول حدّت سے محروم نہ ہو۔
محمد راشد نے بین الاقوامی تعلقات میں بی ایس کیا ہے، صحافی ہیں اور سماجی مسائل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ مختلف موضوعات پر قلم کو متحرک رکھتے ہیں