The news is by your side.

اطہر متین کو یہ نہیں کرنا چاہیئے تھا

نام نہاد روشنیوں کا منہ چڑاتی اندھیر نگری نے ایک قابل صحافی، دو ننھی پریوں کا شہزادہ، بوڑھی ماں کا دھیمے مزاج والا بیٹا اور سہاگن کا انسان دوست شوہر چھین لیا۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں فروری کی اٹھارہ تاریخ کی صبح  سینیئر صحافی  اطہر متین پر رہزنوں نے فائرنگ کردی۔

عینی شاہدین اور ایس ایس پی سینٹرل رانا معروف کا کہنا ہے کہ ملزمان شہری کو لوٹ رہے تھے کہ اسی دوران اطہر متین نے واردات ناکام بنانے کے لیے اپنی گاڑی سے لٹیروں کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور اطہر متین کو اس بہادری اور انسانی ہمدردی کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔

اطہر متین پہلا مقتول ہے نا آخری ہوگا، نئے سال کے ابتدائی 50 دنوں میں 13 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے، جبکہ سال 2021 میں 541 افراد اور سال 2020 میں 507 افراد قتل ہوئے۔ گزشتہ سال پچاس ہزار سے زائد موٹر سائیکل اور دو ہزار سے گاڑیاں چوری یا اسلحہ کے زور پر چھین لی گئیں، سال 2020 میں 1560 افراد گاڑیوں اور 35500 کی دو پہیوں کی سواری ان سے چھین لی گئی۔

ایڈمنسٹریٹر کراچی جناب مرتضی وہاب صاحب کی نظر میں خراب معاشی صورتحال جرائم کی تعداد میں اضافے کا سبب ہے، کئی پولیس اہلکار اور افسران بھی بڑھتے جرائم کی توجیہ “بہت مہنگائی ہے” بیان فرماتے ہیں۔

اعداد و شمار ایک طرف، سندھ پولیس کی نالائقی، نا اہلی، کرپشن اور کارکردگی کی عملی مثالیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، یہ وہی سندھ پولیس اور اسکے اہلکار ہیں جو دعا منگی کیس میں قید ذوہیب علی قریشی کو ‘شاپنگ’ کے دوران فرار کا راستہ فراہم کرتے ہیں، شاہ رخ جتوئی کو اسپتال میں ہی دنیا کی تمام آسائشیں مہیا کی جاتی ہیں۔ جواں سال شاہ رخ کو گھر کے دروازے پر دوران ڈکیتی قتل کرنے والا اسپیشل انویسٹیگیشن یونٹ کا اہلکار تھا جسے 12 سالہ سروس میں 10 اظہار وجوہ کے نوٹس جاری ہوئے، ڈکیتی اور منشیات فروشی کی کم از کم 9 وارداتوں میں ملوث رہا، گرفتار بھی ہوا اور لیکن پھر بھی فرزند علی ہر دن کالی وردی پہن کر کراچی پولیس کے منہ پر کالک ملتا رہا۔

یہی پولیس اہلکار جب ‘کام’ اتارنے پر آجائیں تو نوجوان ارسلان محسود کو کوچنگ سے واپسی پر صرف اس جرم کی پاداش میں موت کی نیند سلاتے ہیں کہ اس نے ناکے پر بائیک نہیں روکی۔

کیا اس شہر کے باسی اب ڈکیتوں کا بھی احترام کریں؟ شاہ رخ کا قتل اور  محکمہ پولیس سے چند سوال!

اسی شہرِ لاوارث میں ایک بہادر بچے نے نقیب اللہ محسود کو قتل کیا، لیکن کیوں کیا؟ یہ ایک مسلّمہ سوال ہے اور 4 سال سے جاری انکوائری اور قانونی کارروائی میں کوئی مائی کا لعل اسکا جواب تلاش نہیں کرسکا۔

عدالتوں کی کارکردگی پر خود سوالیہ نشان ہے، سونے پر سہاگا پھر یہی سندھ پولیس اور اس کے تفتیشی جن کی کمزور انویسٹیگیشن پراسیکیوٹر کے لئے کیس ثابت کرنا مشکل بنادیتی ہے۔ “قانون حقوق کا محافظ” ہے اسی لئے کیس کے ابتدائی مراحل میں کچھ ہزار کے عوض ملزم کو پھر سے معاشرے میں زہر گھولنے کی اجازت مل جاتی ہے، کشمیر روڈ پر قتل ہوئے شاہ رخ کا قاتل پولیس اہلکار عدالتوں سے بری ہو کر آیا اور نوکری پر بحال ہوا۔ عزیر بلوچ ‘سیاسی اور آشیربادی’ بھی کئی مقدمات میں بری ہوتا چلا آرہا ہے، یہ وہی عزیر بلوچ ہے جسے گرفتار کرنے سے قبل ہی مجرم ثابت کیا گیا مگر عدالتوں سے آتے بریت کے فیصلے اس منیجمنٹ کا منہ چڑاتے ہیں۔

پاکستان رینجرز سندھ کو پہلی بار 1989 میں کراچی یونیورسٹی کے 3 طلبہ کے قتل کے بعد اٹھتے ہنگام کو قابو کرنے کیلئے سول اداروں کی مدد کو کراچی میں لایا گیا۔ اس تیس سال سے زائد کے عرصے میں کراچی نے تین بڑے آپریشن دیکھے، آخری باقاعدہ آپریشن کے ایکسلیریٹر پر پاؤں 2015 میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے رکھا اور فیصلہ ہوا کہ ‘کراچی صاف’ ہوگا۔

لیکن کراچی کو شدت پسندی، سیاسی، لسانی، مذہبی، پسندیدہ، ناپسندیدہ ترین، قابل قبول اور ناقابل برداشت کے تدارک کا پلے گراؤنڈ بنادیا گیا، لیکن امن یہاں شاید کبھی کسی کی ترجیح نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر نے امن کے کئی روپ اور دہشت گردی کے کئی چہرے دیکھے لیکن صرف انہیں داغوں کو مٹایا گیا جو ‘ریاست’ کو ناپسند تھے۔ اس شہر میں جب جہاں جس کا بس چلا ناکہ لگایا، کاغذات کی جانچ کی، جب اطلاع ملی آپریشن ہوا اور برائی کا خاتمہ کردیا گیا، اس شہر کی بنیادوں کو ہلانے والوں نے اسکی صفائی کا بھی آدھا ادھورا فیصلہ کیا اور اسکے اگلے مرحلے تعمیر پر تو خیر کوئی بات ہی نہیں ہوئی، اور صفائی کا عمل بھی کبھی پورا نہیں ہوا۔ یہاں ریاست مخالف بڑے جرائم ہمیشہ ناقابل برداشت رہے لیکن بدامنی کے اس طوفان کے بیچ سے اٹھتے “اسٹریٹ کرائم” کو کبھی کسی نے کوئی خطرہ نہیں سمجھا کیوں کہ اس سے ریاست کو نہیں شہریوں کو نقصان تھا اور ریاست کسی بھی فرد سے بڑی ہوتی یے۔ یہی بے فکری اس شہر کو لے ڈوبی!

یہی بے فکری کئی گھر اجاڑ گئی، جوان لاشے اٹھے، بے گناہ مارے گئے، تاجر کاروبار نہ کرسکے اور تنخواہ دار سڑکوں پر محنت سے کمائے مال سے محروم ہوتا رہا۔ المیہ یہ ہے کہ اس الجھے بے ربط شہر میں اختیارات، مفادات کا اژدھام ہے کہ آپ کے سوالوں کا کہیں کوئی جواب نہیں، آپ اپنے سوالوں کے بوجھ کے ساتھ کسی اندھی گولی کا انتظار کرتے رہیں، اور اگر انتظار نہیں ہوتا اور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا لازم ہے تو خود سے ایک آخری سوال کریں، آخر کیوں؟-

اس لئے کہ پولیس، عدالتیں اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے اپنا کام نہیں کر رہے، اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو غلط ہے، آپ صدر میں اسلحہ کی دکانوں پر صرف اسلحہ کے ریٹ معلوم کریں آپ گھر بھی نہیں پنہچیں گے- آپ پولیس کو بھی ہلکا نہ لیں وہ بھی ریتی بجری کے ٹرک روک کر اپنا کام کر رہے ہیں، ہاں اگر کوئی سڑک کنارے لٹ رہا ہے تو آپ خاموشی سے وہاں سے گزر جائیں، کوئی ضرورت نہیں ہیرو بننے کی کیوں کہ یہاں امن کا دور دورا ہے، سب اپنا کام کر رہے ہیں آپ کو کوئی ضرورت نہیں کہ آپ پولیس یا دیگر کسی کا کام کریں، اگر آپ اطہر متین جیسے نیک اور نرم دل ہیں تو آپ انسانوں کا غیر انسانی معاشرے میں کوئی کام نہیں جہاں جرم کے ہونے پر سوال تو نہیں ہوتا مگر مجرم کو روکنے والے کی سانس ہمیشہ کیلئے روک دی جاتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں