تھیئٹر آرٹسٹ اور گلوکار دینانتھ منگیشکر کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے اپنی راج دلاری کا نام رکھا ہیما منگیشکر۔ ہیما گانا چاہتی تھی، لیکن چراغ تلے اندھیرا تھا۔
ہیما کے والد کے کئی شاگرد تھے، لیکن ہیما ان شاگردوں میں شمار نہ ہوتی۔ پھر ایک دن دینانتھ منگیشکر کے ایک شاگرد کو ننھی ہیما اپنے والد کی غیر موجودگی میں غلط راگ لگانے پر سمجھا ہی رہی تھی کہ جوہری کی نظر ہیرے پر پڑی اور دینانتھ کو احساس ہوا کہ اک گویّا تو ان کے اپنے گھر میں ہے۔ پھر اسی ننھی ہیما نے اپنے والد کے ایک اسٹیج کردار کے غائب ہونے پر ان کے ساتھ پہلی بار اسٹیج پر پرفارم کیا تو سننے والوں نے زور دار تالیوں کی گونج میں ننھی ہیما سے ایک بار پھر گنگنانے کی فرمائش کی۔
لیکن دینانتھ کی ہیما اور فلم نگری کی لتا منگیشکر کی زندگی اتنی آسان بھی نہ تھی۔ صرف تیرہ سال کی ہیما کو والد کی جدائی کا سامنا ہوا اور دینانتھ جاتے جاتے معصوم سریلی آواز پر بھاری ذمہ داریاں ڈال گئے، ماں تین بہنیں اور اکلوتا بھائی۔ سب تیرہ سالہ لتا کے ذمے تھے۔ اس نے گھر کا چولہا جلانے کے لیے تھیٹر بھی کیا اور فلموں میں اداکاری بھی۔ فلم نگری کو اس وقت لتا کی جادوئی آواز کا اندازہ ہی نہیں تھا یا یوں کہیے کہ ممبئی میں بننے والی فلموں میں لتا کے گانے کی گنجائش نہ تھی کیوں کہ فلم نگری میں اکثر لوگوں کی یہ رائے رہی کہ اتنی باریک آواز فلموں میں پسِ پردہ موسیقی کے لیے موزوں نہیں، مگر لتا کے گرو ماسٹر غلام حیدر نے دنیا کو غلط ثابت کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا کیوں کہ اُس وقت صرف ماسٹر غلام حیدر یہ بات کہا کرتے کہ اک یہی آواز گونجے گی اور باقی آوازیں پھیکی پڑ جائیں گی، ماسٹر کی کہی یہ بات اب ساری دنیا کہتی ہے کیوں کہ غلام حیدر نے اپنی لتا کو ہارنے نہیں دیا۔
لتا نے پندرہ زبانوں میں کم و بیش پندرہ ہزار گیت گائے۔ بھارت سرکار نے سروں کی دیوی کو سب سے بڑے سول اعزاز بھارت رتنا سمیت پدما بھوشن سے بھی نوازا۔ لتا نے کمرشل ایوارڈ ایک وقت کے بعد لینے سے انکار کیا کیوں کہ لتا کا ماننا تھا کہ نئے آنے والوں کو یہ ایوارڈز ملنے چاہییں۔ لتا ایوارڈز اور کسی بھی اعزاز سے بہت بلند ہوچکی تھیں یا یوں کہیے ‘آج کل پاؤں زمیں پر نہیں پڑتے میرے۔’ لتا نے ممبئی فلم انڈسٹری کو اپنی زندگی کے 70 سال دیے، اندور کی ہیما اور فلم نگری کی لتا منگیشکر نے ہر جذبے کو آواز دی اور ہر احساس کو زبان دی۔
برصغیر کے ہر محبت کرنے والے خصوصاً ہر ٹوٹے بکھرے اور بے یار و مددگار عاشق کے دل کی آہ و بکا کو آواز دینے والی بلبلِ ہند، وہ اپنی آواز میں ‘لگ جا گلے’ کی صدا لگائے تو ہر سینہ بے چین اور ہر دل بے قرار ہوجاتا، وہ ‘پیار کا نغمہ’ گنگناتی تو ہر محبت کرنے والے کو اس کے پیار کی تعریف مل جاتی، جواب صرف یہی ہوتا زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے، اگر کوئی پیار کو دیوانہ پن کہے تو لتا کا جواب ہو ‘دل تو پاگل ہے، دل دیوانہ ہے’، لتا کے گیت پیار جیسی عظیم نعمت سے محروم رہنے والوں کو ‘زندگی کی ٹوٹی لڑی’ کو گھڑی دو گھڑی کے پیار سے جوڑنا سکھاتے، دینانتھ کی ہیما پردیسیا سے ہم کلام ہوتی تو برملا اظہار کرتی ‘سب کہتے ہیں میں نے تجھ کو دل دے دیا’، یہی لتا اپنی کھوئی محبت سے مخاطب ہوتی تو گنگناتی ‘تیرے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں’، شوخ جذبات کے اظہار والی تارکِ دنیا کو پیغام دیتی کہ ‘یہ مناسب نہیں آدمی کے لیے’، جب لتا نے بتایا کہ ‘ایسا دیس ہے میرا’ تو سرحدوں کی قید سے آزاد برصغیر کی مٹی کی خوشبو ہر امن پسند کے دل کو اس کے دیس کی سیر کو لے گئی، اور جب لتا نے جانے والے کو ‘اک بار چلے آؤ’ کہہ کر بلانا چاہا تو پھر کوئی ایسا باقی نہ تھا جس نے کسی کونے میں منہ دے کر اپنے آنسو نہ صاف کیے ہوں۔
ایسی تھی لتا، لتا کے گیت بہت بڑے تھے۔ آج لتا چلی گئی اور کوئی اسے سلیقے سے آواز دینے والا ہی نہیں!