The news is by your side.

مودی جی ، بیٹی پڑھاؤ !

مزاحمت کا استعارہ مسکان دنیا بھر کے حق پرستوں کی تسکین و راحت کا باعث بنی ہے اور پوری دنیا سے داد سمیٹ رہی ہے۔

 آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ آخر اس واقعے کا پس منظر کیا ہے-

فروری کی پانچ تاریخ کو بھارتی ریاست کرناٹک کے صوبائی محکمہ تعلیم نے اسکول اور کالج کے یونیفارم سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری کیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس حکم نامے کو پڑھا جائے تو واضح ہو گا کہ مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کا کالج کونسل کا فیصلہ مذہبی آزادی کے آئینی حق سے متصادم نہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ حکومت کو اس کی ضرورت کیوں پڑی؟

گزشتہ ماہ کرناٹک کے اوڈیپی ضلعے کے سرکاری کالج کی انتظامیہ کی جانب سے حجاب کے خلاف سخت اقدام کی وجہ سے کالج کی آٹھ طالبات کلاسز میں نہیں جا سکیں۔ معاملہ طول پکڑ گیا، سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔

ضلع اوڈیپی میں مسلمانوں کی آبادی کم ہے اور سرکاری کالج میں مجموعی طور پر تقریباً ایک ہزار طالبات زیرِ تعلیم ہیں، جن میں سے صرف 75 مسلمان ہیں اور ان 75 میں سے صرف ایک درجن لڑکیاں حجاب یا برقعہ پہنتی ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ معاملہ عددی نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا ہے، لیکن بھارت اور مذہبی آزادی دو متضاد ہیں۔ اس کی عملی مثال ملاحظہ ہو، اوڈیپی کے کالج میں حجاب کے معاملے پر بحث کا آغاز ہوا تو 100 کلومیٹر دور چکمنگلور کے ایک کالج میں بہت سے طلبہ نے زعفرانی رنگ کا اسکارف پہننا شروع کر دیا۔ یہ رنگ بھگوا کہلاتا ہے اور ہندو مذہب میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ حجاب تنازع شروع ہونے کے بعد بی جے پی کےمقامی راہ نماؤں نے مبینہ طور پر طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کیں اور وہ اس تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔

اب یہ معاملہ اوڈیپی کی آٹھ طالبات یا چکمنگلور کے زعفرانیوں کا نہیں تھا۔ اب یہ ہندو مسلم لڑائی کی ایک نئی وجہ بن گئی، یہ بی جے پی کی سیاسی اور ہندوتوا کی نظریاتی برتری کا سوال تھا اور ری پبلک آف انڈیا کے آئین کے محافظ اعلی عدلیہ کا امتحان۔ طالبات نے صوبائی حکم نامہ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا، اسی دوران اس بحث کو یا یوں کہیے کہ حقوق کی اس لڑائی میں نئی روح خود زعفرانیوں نے پھونک دی۔ بنگلور سے ایک ویڈیو منظر عام پر آئی اور سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئی۔ ویڈیو لاکھوں لوگوں نے دیکھی، ٹوئٹر پر ‘اللہ اکبر’ دنیا بھر میں ٹاپ ٹرینڈ کرنے لگا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسکان پی ای ایس کالج بنگلور پہنچتی ہیں اور جب وہ عمارت کی جانب جا رہی ہیں تو زعفرانی شالیں لہراتا گروہ ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتا مسکان کی جانب بڑھ رہا ہے، مسکان کو ہراساں کرنے لگتا ہے جس کے جواب میں باحجاب طالبہ ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتی ہے۔ مسکان کی مزاحمت ایک قدم اور آگے لے کر ہجوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرتی ہے کہ کیا ہمیں حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں ہے؟ اس باہمت لڑکی کو اس کے پرنسپل اور اساتذہ باحفاظت کالج بلڈنگ میں لے گئے، مسکان سے جب بات ہوئی تو سوال پوچھا گیا ہجوم سے ڈر نہیں لگا؟ تو باہمت لڑکی کا ایک جملہ سب سوالوں کا جواب تھا، مسکان نے کہا جب میں اللہ اکبر کے نعرے لگارہی تھی تو بس اتنا پتہ تھا کہ اللہ ہی مدد کرے گا۔ مسکان کی جرت و بہادری کو دنیا بھر میں بسنے والے انصاف پسند سراہتے نظر آرہے ہیں، اور سراہے جانے کی سب سے بڑی وجہ ہے اقلیت کا اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جانا ہے۔ مزاحمت کا استعارہ مسکان دنیا بھر کے حق پرستوں کی تسکین و راحت کا باعث بنی۔

یہ بظاہر بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا معاملہ ہے، لیکن اس کے کئی اور پہلو بھی ہے۔ اب اس سارے تنازع کا سیاسی جائزہ لیتے ہیں، اس سارے معاملے کے پیچھے صرف اور صرف ایک نظریہ کارفرما ہے، وہ ہے ‘ہندوتوا’ اور اس نظریے کی سب سے بڑی، عملی اور واحد مثال بھارتیہ جنتا پارٹی ہے، لیکن کرناٹک میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟

بھارتی ریاست کرناٹک میں اس وقت سیاسی ماحول گرم ہے، مئی 2023 کے انتخابات کے لیے تیاریاں عروج پر ہیں اور موجودہ اسمبلی کے 224 کے ایوان میں 121 نشستیں بی جے پی کے پاس ہیں۔ اس اسمبلی میں ریاست کے تقریباً 79 لاکھ مسلمانوں کی نمائندگی 7 ایم ایل ایز کررہے ہیں یہاں حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ اس اسمبلی میں ہر انتخاب کے ساتھ مسلمان ارکان کی تعداد کم ہوتی آرہی ہے۔ 2008 میں اس ایوان میں 9 اور 2013 میں 11 مسلمان ایم ایل ایز کرناٹک اسمبلی تک پہنچے، اور موجودہ منتخب ارکان میں مسلمان ارکان کی تعداد یعنی 7 ایم ایل ایز اب تک کا سب سے کم نمبر ہے۔ اس ریاست کی کُل آبادی ساڑھے چھ کروڑ سے زائد ہے، ہندؤں کی تعداد 84 فیصد جبکہ مسلمان اس آبادی کا 13 فیصد ہیں۔ دوسری جانب ہندوستان کے نظام عدل میں 34 میں سے صرف ایک جج مسلمان ملے گا، یعنی بھارتی نظام عدل میں 15 فیصد آبادی والے مسلمانوں کی 3 فیصد ہی جگہ بن پائی حالانکہ انڈیا کے آئین کے آرٹیکل 124 میں جج کی تعیناتی میں مذہب کی کوئی شرط نہیں، جب کہ ریاست کرناٹک کے ہائی کورٹ میں ایک بھی مسلمان جج نہیں۔

موجودہ تنازع کے حل کے لیے کسی لارجر بنچ یا کسی نئے فیصلے کی ضرورت نہیں، فیصلہ پہلے سے سپریم کورٹ آف انڈیا کے ریکارڈ روم میں ہے، بس اس فائل پر جمی وقت کی گرد ہٹانا ہوگی، مذہبی تعصب کی کالک کو صاف کرنا ہوگا اور فیصلہ خود سامنے آجائے گا۔ بھارتی سپریم کورٹ کا 36 سال پرانا فیصلہ آرٹیکل 25 اے کی واضح تشریح ہے کیوں کہ آرٹیکل 25 مذہبی آزادی سے متعلق ہے۔ 1986 کے کیس ‘ایمانیول بالمقابل کیرالہ سرکار’ میں تین (Jehovah’s Witnesses) مسیحی بچوں کو قومی ترانہ نہ پڑھنے پر ہیڈ ماسٹر نے اسکول سے نکال دیا تھا، بچے اس برخاستگی کے خلاف عدالت گئے اور قومی ترانہ نہ پڑھنے کی وجہ ایک خدا کو ماننے اور ٹرینیٹی کے مخالف ہونے کو قرار دیا۔ بچوں نے ہیڈ ماسٹر کے عمل کو آرٹیکل 1-19 اے یعنی آزادی اظہارِ رائے اور آرٹیکل 25 مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے بچوں کے حق میں فیصلہ دیا اور برخاستگی کو بچوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا اور بڑی عدالت کا ہر فیصلہ قانونی تشریح اور آنے والے حالات کے لیے اک نظیر ہوا کرتا ہے۔ موجودہ حجاب تنازع میں ‘ایمانیول بالمقابل کیرالہ سرکار’ کا فیصلہ واضح حل ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ ایمانیول کی جگہ مسکان ہے، یہ 1986ء نہیں 2022ء ہے، ری پبلک آف انڈیا کا پردھان منتری راجیو گاندھی نہیں نریندر مودی ہے۔ اور مودی کے دیس میں تِلَک لگا کر زعفرانی چادر لیے کوئی اشنا کماری پھرے تو حلال ہے، سکھ سردار گوبند سنگھ کی دستار جائز ہے، ایمانیول کو اس کی مذہبی آزادی کے لیے آرٹیکل 19 ون اے اور آرٹیکل پچیس موجود ہیں لیکن ایک مسکان کا حجاب مفادِ عامّہ کے خلاف، اتحاد کا دشمن، یگانگت کا قاتل اور ناپسندیدہ ترین ہے۔ واہ مودی جی واہ!

شاید آپ یہ بھی پسند کریں