The news is by your side.

“مری کہانی کا حسن ہی اختصار میں ہے!”

عبدالرّحمان واصف کا گزشتہ مجموعہ “مختصر” مختصر ترین بحور میں غزلیات پر مشتمل تھا جس میں ان کی تخلیقی اور تجرباتی فطرت خوب ابھر کے سامنے آئی۔ “مختصر” یوں بھی منفرد طرز و نوعیت کا مجموعہ تھا کہ اس سے پہلے اردو شاعری میں مختصر ترین بحور پر کسی بھی قسم کا مربوط یا غیر مربوط مجموعہ نظر نہیں آتا۔ اور ان کے “ڈھائی مصرعی” نظموں پر مشتمل مجموعے “لپک” کے تجربے نے اک بار پھر ان کے اور ہم عصر شعراء کے درمیان ایک تفرد (margin) پیدا کر دیا ہے جو ان کی تخلیق کی گئی شعری فضا کو بھی نمایاں کرتا ہے۔

عبدالرّحمان واصف کا تعلق راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ سے ہے۔ ان کے تین شعری مجموعے بالترتیب ‘بجھی ہوئی شام’ (2012)، ‘تحیّر’ (2018) اور ‘مختصر’ (2019) منظرِ عام پر آچکے ہیں۔

“لپک” میں شامل ڈھائی مصرعی نظمیں عبدالرّحمان واصف کی اختراع ہیں کہ ان سے پہلے نظموں کی ایسی ترتیب اور بنت اور کہیں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملتی۔ یہ نظمیں نہایت شدید جذباتی اظہار ہیں اور ان میں خیال کا بہاؤ اور احساساتی میلان بہت ہم آہنگ اور مسلسل ہے۔ چونکا دینے والا بیانیہ اور تلازمہ کی طلسم انگیزی ایسی ہے کہ نظمیں زندہ کہانیاں محسوس ہوتی ہیں، جو اپنے قاری سے ہم کلام ہونے اور اس سے گفتگو کرنے پر بھی قادر ہیں۔

کچھ کیفیات اتنی خاص ہوتی ہیں کہ انہیں قلم بند کرنے کے لیے عرفان و وجدان کے منصب اولی پر فائز ہونا پڑتا ہے اور قلم کی سیاہی کی بجائے دل کی روشنائی سے الفاظ کو احساس کی لوح پر مدح سرا کرنا پڑتا ہے اور دیکھیے کہ عقیدت مندی کے اس نفیس اظہار کو شاعر نے کس سلیقگی سے لفظوں کی صورت رقم کیا ہے۔

“آمدِ خیرُ البشر”
یہ کون آیا کہ جس کے قدموں نے غم اجاڑے
حواس گاہوں کے آنگنوں میں قرار اترا
نکھار اترا

“سلام بہ نذرِ سبط خیرُ الانام”
وہ جو رہ چکا ہے سوارِ دوشِ پیمبری
وہ جو سبط فاتحِ جنگ بدر و حنین ہے
وہ حسین ہے!

عبدالرّحمان واصف کی یہ مختصر نظمیں قاری کو اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ شاعری محض لفظوں کی جگالی کا نام نہیں ہے بلکہ ایک ایسے جہانِ کار زار کی تخلیق کا نام ہے جس کے لیے اپنی صبحوں میں شام کی اداسی کی باس گھولنا پڑتی ہے اور خود کو اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جلانا پڑتا ہے۔ تمناؤں کے رخصت ہوجانے پر دل کو دلاسہ دینے کے لیے لب کشائی کرنا اور اپنے ہی کاندھوں پر تھپکی دینا کمر میں جھکاؤ پیدا کر دیتا ہے۔

کچھ نظمیں پڑھیے اور لطف لیجیے ان میں ظہور پذیر اُن موسمی تغیرات کا جو سراسر بے دلی اور کم مایگی کی دَین ہیں۔

“ہجرت”
اداسی وقت کے سینے پہ دھرتی ہے اذیت
گلیمِ نیل سے اجڑے ستارے ٹوٹتے ہیں
بھروسے ٹوٹتے ہیں

“گمان”
نظر سے اٹھ گئیں تمام رونقیں
فضاؤں سے سرور و رنگ و بُو گیا
جو تُو گیا

“رفتہ”
آہٹیں گونجتی ہیں سماعت میں گزرے ہوئے وقت کی
بام و در کی طرح آنکھ کا یہ جزیرہ بھی سنسان ہے
دل پریشان ہے!

انسانی احساسات کی کیمسٹری اس قدر پیچیدہ اور دل چسپ ہے کہ اس پر بچّوں کی ہنسی اور بڑوں کے ماتھوں پر پڑنے والی جھریوں کا بیک وقت گمان ہوتا ہے۔ اور تخلیق کار کے موضوعی حالات کی آب و ہوا کی تغیر پسندی تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ محبت اور دل لگی کی لطیف اور دل لبھاتی سر زمینوں سے کب انانیت اور انحراف کا سوتا پھوٹ پڑے کچھ خبر نہیں۔ اس کیفیتی اتار چڑھاؤ کی بے یقینی اور بے ثباتی کا تاثر عبدالرّحمان واصف کی شاعری میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ اقرار کے آسمانوں کو سر کر لینے کے بعد انکار کی کہکشاؤں تک کا سفر انسان پر قلب و نظر کے جو نئے در وا کرتا ہے ان روزنوں سے دنیا کو دیکھنا اور خود کو ایک انجانے جذباتی ہیجان میں مبتلا کر لینے کے باوجود زباں پر “نہیں” کی مہر ثبت کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ گریز پا ہوتے ہوئے بھی اپنی نامکمل و بے چہرہ خواہشات سے گزری ہوئی ساعتوں کی رائیگانی کا حساب مانگنا نہایت کرب ناک اور جاں گسل عمل تو ہے ہی لیکن اذیت کے اس مرحلے کو طے کر لینے کے بعد بھی لہجے کی پائیداری کو برقرار رکھنا پہاڑ کی چوٹی سَر کرنے کے مترادف ہے۔یہ نظمیں دیکھیے۔

“انکار”
کس کام کی اب یہ حسن کیbetmoon güncel giriş سحر انگیز نوا
اب دل امید کی وحشت سے دوچار نہیں
اس بار نہیں!!

“حساب”
جو سبز موسم تمہاری امید پر بجھے ہیں
وہ دن بھی آئیں گے جب تم ان کا حساب دو گے
جواب دو گے!!

“راکھ”
دل کی بنجر زمینیں ہیں نوحہ کناں
خوش گمانی کے مہتاب کیوں بجھ گئے
خواب کیوں بجھ گئے!!

بجھے ہوئے خوابوں کے المیے کو آنکھ میں جگہ دینا اور پھر اس کی بے وقعتی پہ خون رونا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے۔ رونے کے لیے بھی تو اک ذرا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔

“اس بار نہیں…” یہ تین لفظ سننے میں تو بہت سہل ہیں لیکن انہیں ادا کرنے کے لیے شاعر نے کرب کے جس سمندر کو عبور کیا ہوگا، ناامیدی کے جن بے کراں صحراؤں کی خاک چھان کر پیروں کو آبلوں اور زبان کو چھالوں کے نمکین ذائقے سے روشناس کرایا ہوگا اس کی ہیبت ناکی اور وحشت کا اندازہ شاید ہی کوئی پڑھنے والا کر سکے۔ واصف صاحب کے ہاں جذباتی تاثرات کا وفور واقعی لائقِ تحسین ہے۔ اور وہ جس ہنر مندی سے اس جذباتی وفور کا احاطہ کرتے ہیں یہ بھی انہی کا خاصہ ہے۔ ماتھوں پر آویزاں شکایات کی علامتی زبان کو پڑھنا اور اسے معنیٰ آفریں بنانا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔ لہجوں کی ریاضی مشکل تو ہے ہی لیکن حوصلہ شکن بھی ہے، اب یہ اور بات ہے کہ شکایتی لہجے کلام کا حسن دوبالا کر دینے کے لیے بھی کافی ہوتے ہیں:

“شکریہ”
تُو نے بخشے جو درویش کو ہجر میں
ان اجالوں نے آنکھوں کو چھلنی کیا
شکریہ

“بڑے لوگ”
ہم ہیں اجڑے ہوئے وقت کی کترنیں
تم بہاروں کے در پہ کھڑے لوگ ہو
تم بڑے لوگ ہو

ہجر کی شعلہ بیانی کے ساتھ ساتھ عبدالرّحمان واصف نے محبت کی اثر پذیری اور لطافت کو بھی خوب رقم کیا ہے۔ چند نظمیں دیکھیے:

“رزم گاہ”
یہی دل موسموں کی جادہ پیمائی کا محور ہے
بگولے ہجر کے لے کر یہیں سے دھول اگتے ہیں
یہیں پر پھول اگتے ہیں

“تبسم”
بہار آئی چمکتے لفظ دل میں نو بہ نو نظمیں betmoon giriş
اگاتے ہیں
خیالوں میں محبت کے پرندے چہچہاتے ہیں
مناظر مسکراتے ہیں

“چپ”
معلوم ہے نا یہ چپ احساس میں کھل کے ظلمت گھولے گی
سو لازم ہے ایجاد سنہرے لفظوں کی سوغات کریں
چل بات کریں

محبت کی دیوی ان نظموں میں جس مٹھاس اور تہذیبی رنگ کے ساتھ رونما ہوتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شاعر اس امر سے خوب واقف ہے کہ محبت کے رنگ ہی زندگی کو خوب صورتی سے نوازتے ہیں اور محبت ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے دکھوں اور غموں کے اس گرد باد میں جہاں مسکرانا تو کجا سانس لینا بھی محال ہے۔ اور یہی نرم و ملائم کیفیات زندگی کے ترش لہجے میں شائستگی کی رمق اجاگر کرتی ہیں۔

واصف صاحب کی ان دو نظموں کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں۔

“تنبیہ”
کفِ اعتبار پہ رکھ نہ خواب امید کا
یہ نہ ہو یہ خواب ترے حواس کو نوچ لے
ابھی سوچ لے!!

“تجھے یاد ہے”
میاں بے بسی کا گلہ نہ کر
میں کہا تھا عشق فساد ہے
تجھے یاد ہے؟

(تبصرہ نگار:احمد اویس)

betmoon

شاید آپ یہ بھی پسند کریں