بچّوں کو کس چیز ضرورت ہے، ان کے شوق اور خواہشات پوری کرنے کے لیے کیا کیا جائے، سال گرہ ہے تو تحفہ کیا دیا جائے اور رزلٹ آنے کے بعد بچّوں کے لیے ایسا کیا سرپرائز ہو کہ ان کی سال بھر کی تھکن اتر جائے؟
کوئی تہوار ہو یا تقریب وہ چیز خریدی جائے جس پر بچّے ہاتھ رکھ دیں، حتّٰی کہ گھر میں پکوان بھی وہی ہو جسے بچّے خوش ہو کر کھائیں۔ تقریباً سب والدین اپنی اپنی حیثیت کے مطابق بچّوں کے لیے کم و بیش اسی قسم کی خواہش رکھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے دن رات جتے رہتے ہیں، جو نہیں کرپاتے وہ اسی غم میں گھلتے رہتے ہیں۔
جیسے جیسے بچے بڑے ہونے لگتے ہیں والدین ان کو کتابوں کے درمیان بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بس پڑھائی کریں اور جب پڑھ کر اٹھیں تو ذہن ہلکا پھلکا کرنے کے لیے ٹی وی، موبائل یا دوستوں کے ساتھ وقت گزار لیں، کہیں باہر جا کر کھانا کھالیں اور گھوم پھر لیں تاکہ تازہ دم ہو کر پھر کتابوں میں اپنا دماغ کھپا سکیں۔ اس دوران اکثر والدین بچوں سے اپنی مالی اور گھریلو پریشانیاں بھی چھپاتے ہیں کہ ابھی پڑھائی پر توجہ دینے کا وقت ہے کہیں ایسا نہ ہو ذہن ان مسئلوں میں الجھ کر پڑھنے کا نہ رہے، والدین کی اسی تگ و دو میں بچے اسکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی میں قدم رکھ لیتے ہیں اور یقین جانیے اس اسٹیج تک آکر بھی ہمارے جیسے معاشروں میں بچوں کی اکثریت کو کتابوں اور تفریح کے سوا دنیا کا کچھ پتا نہیں ہوتا کیوں کہ والدین نے بچپن سے انہیں بتایا ہی نہیں ہوتا کہ دنیا بس کھانے پینے، تحفے سمیٹنے اور سال گرہ منانے کی جگہ نہیں بلکہ یہاں زندگی اپنے جینے کے لیے بھاری تقاضے اور سخت محنت کا مطالبہ کرتی ہے۔
والدین اپنے بچوں کو پالنے میں یہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں گرم ہوا بھی نہ چھو کر گزرے، کوئی خواہش تشنہ نہ رہ جائے، ان کو اپنے پروں میں چھپا کر رکھیں کہ زمانے کی چال بازیوں اور چالاکیوں سے محفوظ رہیں۔ یقین جانیے ایسے بچے عملی زندگی میں اکثر پریشانی کا شکار رہتے ہیں کیوں کہ انہیں اپنے بل پر کھڑا ہونے کے بجائے انگلی پکڑ کر چلنے کی عادت والدین نے خود ڈالی ہوتی ہے۔
زمانہ بدل چکا ہے، یہ مان لینا چاہیے کہ اب وہ وقت نہیں کہ بچوں کو ہنر سکھانے کے لیے درزی یا میکینک کی دکان پر بٹھا دیا جائے۔ تعلیم بلا شبہ ترجیح بن چکی ہے لیکن کیا برا ہے کہ تعلیمی مراحل طے کروانے کے ساتھ ساتھ والدین بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی مالی خود مختاری حاصل کرنے کی تربیت بھی دیں۔ جو اس ڈیجیٹل دور میں کوئی بڑی یا انہونی بات نہیں ہے۔
یورپ کے بے شمار ممالک میں تیرہ سال کی عمر سے ہی بچوں کو ہلکے پھلکے کاموں کی طرف راغب کیا جاتا ہے اور ان کے لیے مختلف ٹریننگ پروگرامز رکھے جاتے ہیں۔ ان بچوں کے کام کرنے کی جگہوں پر سخت اصول و ضوابط ہوتے ہیں جہاں یہ جنسی، جسمانی اور جذباتی ہر اعتبار سے محفوظ ہو کر پیسے کماتے ہیں۔
امریکا میں ٹین ایج بچوں کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں میں کمانے کے ایسے مواقع موجود ہیں جہاں وہ بارہ سے پندرہ ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے باآسانی کما لیتے ہیں۔ اور ایک سروے کے مطابق اس تربیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر ماہ سولہ سے انیس سال کے درمیان کی عمر کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچے باقاعدہ نوکری حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو ٹین ایج بچوں کے کام کے حوالے سے معیار مقرر کرتے ہیں کہ وہ کتنے گھنٹے کام کرسکتے ہیں، کس قسم کا کام کر سکتے ہیں اوران کی آمدنی کیا ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی مان لینا چاہیے کہ ہم یورپ یا امریکا میں نہیں بلکہ پاکستان میں رہتے ہیں جو کہ بچوں اور عورتوں کے حوالے سے دنیا کے غیرمحفوظ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اعلی تعلیم اور اچھی زندگی کا حصول مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اگر اب بھی والدین اسی سوچ سے آگے بڑھے کہ ہم کماتے رہیں اور بچے بس پڑھتے رہیں تو یقین جانیے آخر میں سر پکڑ کر رونے کے سوا کوئی راستہ نہ ہوگا۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی اب یہ تربیت دی جائے کہ وہ ڈیجیٹل ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے آن لائن فری لانسنگ کے دروازے کھولنے کی کوشش کریں جو کم وقت اور کم محنت طلب کام ہے، جس کی دنیا بھر میں مانگ بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اس طرح بچے والدین کی نظروں کے سامنے رہ کر ہی موبائل یا لیپ ٹاپ کا درست استعمال کر کے مسائل پر خود ہی قابو پانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں ایسے کئی پلیٹ فارم اس وقت موجود ہیں جو معمولی معاوضے پر ڈیجیٹل دنیا کے اسرار و رموز کھول رہے ہیں اور آپ کو آگے بڑھنے کے راستے دکھا رہے ہیں۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو والدین اپنے پروں سے آزاد کردیں اور انہیں اڑان بھرنے کے لیے اپنا آسمان خود تلاش کرنے دیں۔
والدین کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر انہوں نے سخت محنت کر کے ہزاروں لاکھوں روپے کمائے بھی تو یہ کوئی بڑی بات نہیں، ان روپوں کے لیے اپنی جوانی، صحت اور خوشیاں بھی تو داؤ پر لگائی ہیں، لہٰذا اپنے بچوں کو ہارڈ ورک کے بجائے اسمارٹ ورک کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی بھی بھرپور طریقے سے جی سکیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو ڈگری کے حصول کی جدوجہد سے آزاد کر دیا جائے بلکہ ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اعلی تعلیم کے حصول میں والدین پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے تعلیمی اخراجات خود ہی پورے کرنے کے قابل ہوسکیں ساتھ والدین کا سہارا بھی بن سکیں۔ اس طرح یہ بچے تعلیمی مراحل مکمل کرنے تک مالی طور پر کافی حد تک مستحکم ہوچکے ہوں گے اور اگر بچوں کی تربیت کے اس پہلو کو اب بھی نظر انداز کیا گیا تو ہمیں اپنے اطراف یہی نوجوان نظر آتے رہیں گے جو ڈگری ہاتھ میں لیے چوبیس سال کی عمر میں پچیس ہزار کی نوکری کے لیے جوتیاں گھستے ہیں۔
یاد رکھیے روپیہ پیسہ زندگی کی خوشیوں کی لازمی شرط نہ ہونے کے باوجود انتہائی ضروری ہے اس لیے اپنے بچوں کو اس ضروری چیز کے لیے چھوٹی عمر سے تیار کریں ان سے گھریلو اور مالی امور پر بات چیت کیجیے یہ سوچ کر بھی کہ ہم سانس جیسی ناقابل اعتبار شے پرجی رہے ہیں جس کی ڈور کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ اگر چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد بچے در بدر کی ٹھوکریں نہ کھائیں تو آپ بے شک مالی طور پر کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی محنت اور کمانے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ اپنے لیے، آپ کے لیے اور اس قوم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکیں۔