The news is by your side.

دعا زہرا کیس: نکاح نامعتبر یا عدالتی فیصلہ؟

دعا زہرہ کا کیس ایک بار پھر ‘ہائی لائٹ’ ہو رہا ہے، لیکن ہر کیس کی طرح یہ کیس بھی اس حقیقت کی قلعی کھول رہا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اشرافیہ کے لیے تو کہا جاتا ہے کہ یہ طبقہ عدالتی احکامات کو خاطر میں نہیں لاتا اور یہ جب چاہیں دولت اور طاقت کے بل پر عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا لیتے ہیں، یہ شکوہ بجا ہے، لیکن کیا یہی حال ایک عام شہری کا بھی نہیں ہے؟ کیا ایک عام آدمی بھی عدالت کے کسی ایسے فیصلے کو آسانی سے تسلیم کرلیتا ہے جو اس کے مفاد میں نہ ہو یا اس کی خواہش کے برعکس آیا ہو، ہر گز نہیں۔

یہ سچ ہے کہ جب اور جہاں جس کا مفاد ہوتا ہے وہاں عدالت کا فیصلہ مان لیا جاتا ہے اور جہاں جس کو اپنی دال گلتی نظر نہیں آتی وہ کھلے عام عدالتی فیصلوں پر تنقید کر کے ان کے خلاف محاذ کھول لیتا ہے۔ اشرافیہ کو چھوڑیے، اس وقت بات کرتے ہیں ایک عام آدمی کی۔ پاکستان میں عموماً عام لوگوں کا عدالت سے اگر کوئی واسطہ پڑتا بھی ہے تو زیادہ تر عائلی معاملات ہوتے ہیں۔ نکاح، خلع، طلاق اور ان ہی سے جڑے لاتعداد مسائل۔

چند سال قبل ریمانڈ ہوم کے ایک دورے میں میری ملاقات پندرہ سولہ سال کی عمر کے ایک بچے سے ہوئی تھی جس نے اپنی ہی ہم عمر ایک بچی سے حیدر آباد کی سیشن کورٹ سے اجازت نامہ لے کر نکاح کیا تھا۔ بچی کے گھر والے اثر و رسوخ رکھتے تھے انہوں نے بچی واپس لی اور لڑکے پر اغوا کا پرچہ کروا دیا۔ وہ بچہ آج تک ایک ایسے جرم کی سزا بھگت رہا ہے جس کو انجام دینے میں عدلیہ کی ہی آشیرباد اسے حاصل تھی۔ وہ دوران گفتگو اس بات پر مصر تھا کہ بے شک لڑکی کے گھر والے نکاح ختم کروا کے اسے واپس لے گئے ہیں لیکن وہ اب بھی اس کی بیوی ہی ہے۔

اب آئیے دعا زہرا کے معاملے کی طرف۔ والدین کے جذبات اور سماجی بگاڑ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس وقت اگر غیرجانب داری سے اس معاملے کو دیکھا جائے تو یہاں بھی معاملہ یہی ہے کہ جس نکاح کو لڑکے کا سنگین جرم قرار دیا جارہا ہے اس میں تو ان بچوں کو عدالت کی جانب سے اجازت تھی۔ لیکن اب دعا زہرا کے لیے سوشل میڈیا پر نکاح کے بجائے زنا کے لفظ کا استعمال دماغ پر ہتھوڑے برسا رہا ہے اور اس نکاح کو ماننے سے سرے سے انکار کیا جارہا ہے۔ یہ ہماری روایتی سوچ اور پسند کی شادی سے متعلق مخصوص ذہنیت ہے یا مذہب اور مسلک کا جھگڑا، جس میں مطالبہ صرف یہی کیا جارہا ہے کہ لڑکے یا اس کے متعلقین پر اغوا کا مقدمہ بنے اور بچی والدین کے حوالے کی جائے، کیوں کہ وہ کم عمر ہے اور ابھی اٹھارہ سال کی نہیں ہوئی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ بعض دینی حلقوں کا مطالبہ بھی یہی ہے جب کہ دین میں نکاح کی کم سے کم عمر کا تعین صرف بلوغت کی جسمانی اور ظاہری علامات سے کیا جاتا ہے اور فرض کرلیں، ایک لمحے کو مان لیں کہ دعا زہرا کا نکاح صرف اس لیے درست نہیں کہ اس کی عمر متعین سے کم ہے تو پھر جان لیجیے کہ پاکستان بھر میں بیاہی گئی کتنی ہی بچیوں کے نکاح کو منسوخ کرنا پڑے گا کیوں کہ جس وقت نکاح پڑھایا جارہا تھا، اس وقت بچیاں اٹھارہ یا سولہ سال سے کم عمر تھیں۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کم عمری کی شادیاں پاکستانی سماج میں ایک عام بات ہے اور اس کے لیے ہمیشہ شریعت کو آڑ بنایا جاتا ہے۔

رہ گئی یہ بات کہ دعا زہرا کسی کے دباؤ میں ہے اس لیے اس کا نکاح معتبر نہیں، اسے یوں‌ درست کہا جا سکتا ہے کہ شادی کے لیے سب سے اہم شرط ہی لڑکی اور لڑکے کا بلا جبر و اکراہ رضامند ہونا ہے، لیکن پھر انصاف صرف دعا زہرا کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کی ان سیکڑوں بچیوں کے لیے بھی طلب کیے جو والدین کے دباؤ اور سنگین دھمکیوں کے بعد سرخ جوڑے کا کفن پہنتی ہیں۔ پھر آپ اس کو کیسے نکاح مان لیتے ہیں، کیوں دعا زہرا کی ماں کی طرح ان سب کی مائیں‌ تو کسی کے سامنے یہ نہیں‌ کہہ پاتیں کہ ان کی بیٹیوں سے یہ ظالم معاشرہ نکاح کے نام پر زنا کروا رہا ہے۔

عدالتی احکامات کی دھجیاں صرف نکاح کے معاملات ہی میں عام افراد نہیں اڑاتے بلکہ خلع کا معاملہ بھی یہی ہے۔

ایک عام مشاہدہ جو ہم سب نے ہی کیا ہوگا کہ اگر کوئی عورت عدالت سے خلع لے تو پاکستان میں رائج مسالک میں اس کو تسلیم کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہوتی اور عدالتی خلع کے بعد عورت کو مختلف حیلوں بہانوں سے سابق شوہر سے رجوع کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ خلع معتبر نہیں تو عورت کیوں عدالت میں ایڑیاں رگڑتی اور دھکے کھاتی ہے کہ جس جہنم سے نکلنے کے لیے مہینوں پاپڑ بیلے پھر وہیں پھینک دی جائے۔

اور اگر یہ خلع معتبر نہیں بلکہ صرف ایک طلاق میں شمار ہوتی ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ کہ عورت کہیں دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق بھی کھو چکی ہے۔ اس بات کو بیّن کہا جاتا ہے کہ عورت بے شک خلع لے لے، نکاح ختم کرنے نہ کرنے کا اختیار تو مرد کا ہے۔

اب اگر آپ کو ان عدالتوں کا نہ نکاح تسلیم کرنا ہے اور نہ خلع، تو پھر کیوں یہاں فیملی لاز موجود ہیں۔ عائلی معاملات کے فیصلے مقامی پنچایتوں کے حوالے کیوں نہیں کر دیتے۔ اگر کسی کو عدالتی فیصلے تسلیم ہی نہیں کرنے تو ایسا کیجیے کہ عدالتوں کو تالے لگوا دیں، کیوں یہاں وکیلوں کے ہاتھوں لوگ روپے پیسے سے ہاتھ دھوتے ہیں، عدالتوں کی طویل اور اندھیری راہداریوں میں خوار ہوتے ہیں، بس اس لیے کہ کل کوئی بھی کھڑا ہو اور عدالت کے چلائے ہوئے قلم کے آگے کبھی اپنی اور کبھی شریعت سے ایسا کوئی نکتہ اور دلیل لے آئے جو اس کے مفاد میں‌ ہو اور اس کے مؤقف کو درست ثابت کرتی ہو اور اس وہ یہ بتائے کہ اس ملک میں اگر کوئی سب سے زیادہ ناقابلِ اعتبار ہے تو وہ عدلیہ ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں