پاکستان کی قومی سیاست میں صوبہ پنجاب اس وقت سیاسی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں کل بروز اتوار 17 جولائی کو صوبائی اسمبلی کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخابات کا سیاسی دنگل ہونے والا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔یہ ضمنی انتخابات تحریک ِ انصاف کے ان بیس منحرف ارکانِ پنجاب اسمبلی کی نشستوں کے خالی ہونے کے بعد ہو رہے ہیں، جنہیں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی بنا پرالیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا تھا۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات کی اہمیت۔پنجاب کے ضمنی انتخابات ملکی سیاست میں غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکے ہیں ، پاکستان کی 74 سالہ سیاسی تاریخ میں پہلی بار یہ موقعہ آیا ہے جب کسی حکومت کا بننے یا گرنے کا مکمل انحصار ضمنی انتخابات کے نتائج پر ہوگیا ہے، پنجاب اسمبلی کے بیس انتخابی حلقوں کے نتائج جہاں ایک طرف تختِ لاہور کے حقدار کا تعین کریں گے تو وہیں دوسری طرف وفاق کے سیاسی مستقبل کے فیصلے میں بھی ان نتائج کا کلیدی کردار ہوگا، اگر تحریک انصاف تیرہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو پنجاب میں اس کی حکومت کے قیام کی راہیں ہموار ہوجائیں گی، جبکہ مسلم لیگ نون کو پنجاب میں اپنی حکومت بچانے کے لیئے کم از کم دس نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔
ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کو درپیش چیلنجز۔تحریک ِ انصاف کو سب سے بڑا چیلنج جو درپیش ہے وہ یہ کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اسے 2018 کے عام انتخابات کی مانند مبینہ طور پر مقتدر حلقوں کی نہ صرف حمایت حاصل نہیں ہے بلکہ اس کےبرعکس یہ الزام سربراہ تحریک انصاف عمران خان کی طرف سے مسلسل لگایا جارہا ہے کہ ان ضمنی انتخابات میں” ایمپائر”بھی مسلم لیگ نون کے ساتھ ملے ہوئے ہیں،عمران خان انتخابی مہم کے دوران ضمنی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے الزام کا بار بار اعادہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون کو پہلا چیلنج جو درپیش ہوا وہ ان بیس منحرف ارکان کو انتخابی ٹکٹ دینے جیسے مشکل فیصلہ کا تھا جس کے نتیجہ میں لیگی کارکنا ن اور سابق اراکینِ پنجاب اسمبلی کی بڑی تعدادنے پارٹی کے اس فیصلے کو رضامندی کے ساتھ قبول نہیں کیا چنانچہ 2018 کے انتخابات میں لیگی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والے بعض امیدواروں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں انتخابی مہم سے علیحدگی اختیار کرلی ہے جبکہ بعض حلقوں میں پارٹی فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ناراض لیگی امیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، خوشاب پی پی 83 سے ملک آصف بھا، لودھراں پی پی 228 سے پیر رفیع الدین بخاری، اور لیہ پی پی 282 سے محمد ریاض آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے ہیں ۔
اسی طرح بعض انتخابی حلقوں میں تو ناراض لیگی اراکین پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں،بھکر پی پی 90 سے عرفان اللہ خان نیازی اور لودھراں پی پی 224 سے پیر عامر اقبال شاہ بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے علاوہ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ، اور شہری حلقوں میں منحرف اراکین کے خلاف ووٹرز میں غصے کا عنصر بھی لیگی امیدواروں کے لیئے ایک مشکل چیلنج کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ووٹرز کی رائے پر ضرور اثرانداز ہوگی مگر مسلم لیگ نون انتخابی نتائج پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے ، لاہور کے مختلف حلقوں میں سستا آٹا تقسیم کیا جارہا ہے تو کہیں اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کمی کی جارہی ہے، گزشتہ ہفتہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی جانب سے مفت بجلی کا اعلان ، جبکہ الیکشن سے محض دو دن قبل وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ووٹرز کو راغب کرنے کی اسی انتخابی اسکیم کا حصہ ہے۔
مریم نواز بھرپور انداز میں لیگی امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں جہاں وہ عوامی جلسوں میں مہنگائی کی ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈالتی نظر آتی ہیں مگر کیا عوام ان کے اس دعوے پر یقین کرلے گی؟ اس کا فیصلہ تو ضمنی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں ہی ممکن ہوسکے گا۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طوفانی انتخابی مہم کا اختتام جمعہ کے روز لاہور کے انتخابی جلسوں سے خطاب پر ہوا جس میں انہوں نے عوام کو بآور کرانے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت کو ایک بیرونی سازش کے ذریعہ ختم کیا گیا جس کے بعد ملک سیاسی انتشار کی دلدل میں پھنس چکا ہے ،پی ٹی آئی کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت عمران خان کے بیانیہ کی مقبولیت کو ظاہر کررہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اس مقبولیت کو ووٹ کی طاقت میں بدل سکے گی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب بھی 17 جولائی کو موصول ہونے والے نتائج کی روشنی میں ہی دیا جاسکے گا۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں فاتح کون ہوگا؟ پنجاب کے ضمنی انتخابات سے قبل حسبِ روایت دونوں جماعتیں ہی اپنی اپنی فتح کی نوید سنارہی ہیں مسلم لیگ نون 16 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی دعویدار ہے تو تحریک انصاف بھی ضمنی انتخابات میں کلین سویپ کے بلند وبانگ دعوے کرتی نظر آرہی ہےجبکہ حقیقی صورتحال ان دعووں کے بالکل برعکس معلوم ہوتی ہے، میڈیا چینلز ، صحافتی حلقوں ، اور مقامی ذرائع کی طرف سے رائے عامہ پر مبنی مختلف سروے آرہے ہیں جن کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیس میں سے چند ایک انتخابی حلقوں کو چھوڑ کر اکثر حلقوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقعہ ہے ، زیادہ تر حلقوں میں کسی بھی جماعت کی فتح کا دعویٰ کرنا قبل از وقت اور غیر یقینی معلوم ہوتا ہے،جمعہ کے روز انتخابی مہم کا اختتام ہوچکا ہے ، جس کے بعد پنجاب کے بیس انتخابی حلقوں کی تازہ ترین سیاسی صورتحال کا جائزہ لینےاور نتائج کا پیشگی اندازہ لگانے کے لیئے ایک تحقیقاتی اور تجزیاتی رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔
پی پی 7راولپنڈی
اس حلقہ سے نون لیگی امیدوار راجہ صغیر احمد ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت کی تھی، تحریک انصاف نے اس حلقہ سے کرنل (ر) شبیر اعوان کو انتخابی ٹکٹ دیا ہے جو کہ 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔گزشتہ عام انتخابات میں راجہ صغیر احمد نے 44 ہزار 286 ووٹ حاصل کیئے تھے جبکہ ان کے مقابلہ میں لیگی امیدوار راجہ ظفر الحق کے فرزند راجہ محمد علی تھے جنہوں نے 42 ہزار 382 ووٹ حاصل کرکے حلقہ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ پی ٹی آئی کے غلام مرتضی ستی تیسرے نمبر پر تھے۔اس ضمنی انتخاب میں راجہ صغیر احمد نون لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑرہے ہیں جس کی بدولت انہیں الیکشن میں ذاتی ووٹ بینک کے علاوہ لیگی ووٹ بھی ملے گا، گزشتہ عام انتخابات میں راجہ صغیر احمد اور نون لیگ کے ووٹ اگر شمار کیئے جائیں تومجموعی طور پر 86 ہزار 668 ووٹ دو امیدواروں نے حاصل کیئے تھے جبکہ ان کے مقابلہ میں پی ٹی آئی کے غلام مرتضی ستی 40 ہزار 332 ووٹ حاصل کرسکے، اس طرح راجہ صغیر احمد کی مجموعی لیڈگزشتہ عام انتخابات میں 46 ہزار 336 ووٹوں تک پہنچ جاتی ہے ، عمران خان کے بیانیہ کی مقبولیت کے باوجود اس دگنی برتری کو ختم کرکے لیڈ حاصل کرنا تحریک انصاف کے لیئے ایک مشکل چیلنج معلوم ہوتا ہے،پی پی 7 راولپنڈی کلرسیداں اور کہوٹہ جیسے دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں مقامی دھڑے بندی اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی برادریوں کی اکثریت کے لحاظ سے بھی یہاں لیگی امیدوار راجہ صغیر احمد کی پوزیشن قدرے بہتر معلوم ہوتی ہے ۔
پی پی83 خوشاب
گزشتہ عام انتخابات میں اس حلقہ سے آزاد امیدوار ملک غلام رسول سنگھا نے 68 ہزار 959 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مدِ مقابل لیگی امیدوار ملک آصف بھا 47 ہزار 684 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے، ملک غلام رسول سنگھا بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے، مگر اس ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نون نے انتخابی ٹکٹ ملک حیدر علی سنگھا کو دیا ہے جو کہ ملک غلام رسول کے بھائی ہیں، اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار حسن اسلم ہیں جو کہ سابق وفاقی وزیر اور موجودہ رکنِ قومی اسمبلی عمر اسلم کے بھائی ہیں، اس حلقہ میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کو اپنی ہی جماعت کے آزاد امیدواروں کا چیلنج بھی درپیش ہے، گزشتہ عام انتخابات میں رنراپ رہنے والے لیگی امیدوار ملک آصف بھا اس حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑرہے ہیں اسی طرح تحریک انصاف کے ناراض کارکن حامد محمود وڈھل بھی یہاں سے آزاد حیثیت میں پنجہ آزمائی کررہے ہیں۔ اس حلقہ میں اگر پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لیگی امیدوار ملک حیدر سنگھا کے لیئے یہ انتخاب جیتنا کافی مشکل ہوگااس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے ملک غلام رسول سنگھا کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کرادیا تھا جس کے نتیجہ میں انہیں تحریک انصاف کا ووٹ بھی کافی تعداد میں انہیں مل گیا تھا مگر اس ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کا امیدوار بھرپور انداز میں الیکشن لڑرہا ہے، دوسری وجہ حلقہ میں آزاد امیدوار اور فعال لیگی کارکن ملک آصف بھا کی مقبولیت ہےجنہوں نے گزشتہ انتخاب میں 47 ہزار ووٹ حاصل کیئے تھےاگرچہ پی ٹی آئی کے حسن اسلم کو بھی اپنی ہی جماعت کےآزاد امیدوار حامد محمود ٹوانہ سے بھی نبردآزما ہونا ہوگا مگر مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک یہاں زیادہ تقسیم ہوتا نظر آرہا ہے، بعض مقامی صحافی تو یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ یہاں اصل مقابلہ حسن اسلم اور آزاد امیدوار ملک آصف بھا کے درمیان ہے، اس دعوے کی حقیقت کا علم تو 17 جولائی کو ہوجائے گا مگر سیاسی مبصرین کی اکثریت اس حلقہ میں تحریک انصاف کے حسن اسلم کو فیورٹ قررار دے رہی ہے۔
پی پی90 بھکر
اس حلقے میں مسلم لیگ نون کے امیدوار سعید اکبر خان نوانی ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی، سعید اکبر خان نوانی سات بار رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں جبکہ تحریک انصاف نے اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے سابق جنرل سیکریٹری عرفان اللہ خان نیازی کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کی طرف سے رنر اپ رہتے ہوئے 44 ہزار 915 ووٹ حاصل کیئے تھے، عرفان اللہ خان نیازی کی تحریک انصاف میں شمولیت سے بھکر میں پارٹی کو تقویت ملی ہےاور پھر حلقہ میں دریا خان کے مقام پر عمران خان کے عظیم الشان جلسے نے اس مقابلہ میں جان ڈال دی ہےورنہ سعید اکبر خان نوانی یکطرفہ مقابلہ میں یہاں سے فتح حاصل کرلیتے، اگرچہ اب بھی اس حلقے میں سعید اکبر خان نوانی ہی تمام امیدواروں میں سب سے مضبوط نظر آتے ہیں اور امکانات یہی ہیں کہ وہ آٹھویں بار بھی رکن اسمبلی منتخب ہوجائیں گے۔
پی پی97 فیصل آباد
سابق صوبائی وزیر محمد اجمل چیمہ اس حلقے میں مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں ، انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں 42 ہزار 273 ووٹ لیکر آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی تھی اور بعد ازاں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی، ان کا اصل مقابلہ اس حلقے میں تحریک انصاف کے علی افضل ساہی سے ہوگا جوکہ فیصل آباد کے ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، اس حلقے میں بھی مقامی ذرائع سے یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ دیگر حلقوں کی طرح یہاں بھی مسلم لیگ نون کے کارکنان اور سپورٹرز افضل چیمہ کی انتخابی مہم سے خود کو علیحدہ رکھے ہوئے ہیں ، اس حلقہ سے گزشتہ عام انتخابات میں لیگی امیدوار آزاد علی تبسم 35 ہزار 298 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے تھے مگر افضل چیمہ کی انتخابی مہم میں ان کی فعالیت نہ ہونے کے برابر نظر آرہی ہے، افضل چیمہ کو درپیش تمام تر چیلنجز کے باوجود اس حلقہ میں 17 جولائی کو گھمسان کا رن پڑنے والا ہے یہاں دونوں جماعتوں کی فتح کا تناسب ٪50 فیصد کے ساتھ برابر نظر آتا ہے۔
پی پی125 جھنگ
اس حلقے میں فیصل حیات خان جبوانہ مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں ، انہوں نے سال 2018 کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر فتح حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی، اس حلقے میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے میاں اعظم چیلہ سے ہے جو یہاں سے دو بار رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں ، اس حلقہ میں اگرچہ مسلم لیگ نون کے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی افتخار احمد بلوچ بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑرہے ہیں لیکن اصل معرکہ فیصل حیات جبوانہ اور اعظم چیلہ کے درمیان ہی دیکھنے کو ملے گا جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق فیصل حیات جبوانہ معمولی برتری کے ساتھ آگے ہیں مگر توقع یہی ہے کہ یہاں بھی مقابلہ مسلم لیگ نون کے لیئے آسان نہیں ہوگا۔
پی پی127جھنگ
اس حلقے میں مسلم لیگ نون نے مہر اسلم بھروانہ کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں 27 ہزار 399 ووٹ لیکر جیت اپنے نام کرنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی تھی، اس ضمنی انتخاب میں ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے محمد نواز بھروانہ سے ہوگا جو گزشتہ عام انتخابات میں محض 790 ووٹوں سے پیچھے رہ گئے تھے، مگر اس بار ضمنی انتخاب میں ان کی کامیابی کے امکانات روشن نظر آتے ہیں،جھنگ میں مذہبی ووٹ بینک ہمیشہ کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، درگاہ سلطان باہو اور سیال شریف کے معتقدین اور مریدین اس ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی حمایت کررہے ہیں ، پیر آف سیال شریف کے صاحبزادے قاسم سیالوی تو پی ٹی آئی کے امیدوار محمد نواز بھروانہ کی باقاعدہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں ، اسیطرح جھنگ کے معروف سیاستدان شیخ وقاص اکرم کی تحریک انصاف میں شمولیت سے بھی نواز بھروانہ کی پوزیشن اس حلقے میں کافی مضبوط ہوئی ہے یہاں مسلم لیگ نون کو فتح حاصل کرنے کے لیئے سخت محنت کرنا ہوگی۔
پی پی پی140شیخوپورہ
اس حلقے میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن میاں خالد محمود مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے انتخابی ٹکٹ پر 32 ہزار 862 ووٹ لیکرمسلم لیگ نون کے امیدوار کو شکست دی تھی ، ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے جواں سال فعال کاکن خرم شہزاد ورک سے ہوگا، شیخوپورہ کو اگرچہ روایتی طور پر مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھا جاتا ہے مگر یہ حلقہ زیادہ تر شہری آبادی پر مشتمل ہے جہاں مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی بھی کافی تعداد موجود ہے ، شہری حلقوں میں عمران خان کےبیانیہ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، اس لیئے اس حلقے میں بھی کانٹے کے مقابلہ کی امید کی جارہی ہے جس میں فتح حاصل کرنے کے لیئے تحریک انصاف کو سرتوڑ کوشش کرنی ہوگی۔
پی پی158 لاہور
اس حلقے سے سابق صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے منحرف رکن ِ صوبائی اسمبلی عبد العلیم خان نے 2018 کے عام انتخابات میں 52 ہزار 299 ووٹ لیکر لیگی امیدوار کو شکست دی تھی مگر اس ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نون نےگزشتہ عام انتخابات کے رنر اپ رانا احسن شرافت کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے جن کا مقابلہ تحریک انصاف کے میاں اکرم عثمان سے ہوگاجوکہ پی ٹی آئی رہنما میاں محمود الرشید کے داماد ہیں ، یہ حلقہ بھی روایتی طور پر مسلم لیگ نون کا گڑھ رہا ہے، لیگی رہنما سردار ایاز صادق خود اس حلقہ میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں وہ ماضی میں خود بھی اسی علاقے سے متعدد بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں ، حلقے کی عوام ایاز صادق کی طرف سے کرائے گئے ترقیاتی کاموں اور ان کی عوامی خدمات کی معترف ہے مگر اس کے باوجود انتخابی سروے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ نون لیگ کے لیئے یہاں فتح حاصل کرنا آسان بالکل نہ ہوگا البتہ امکان کی حد تک یہ کہنا خلافِ احتیاط نہ ہوگا کہ اس حلقے میں مسلم لیگ نون ہی اس وقت زیادہ بہتر پوزیشن میں نظر آرہی ہے۔
پی پی167 لاہور
اس حلقے سے پی ٹی آئی کےمنحرف رکن اسمبلی ترین گروپ کے نذیر احمد چوہان مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں 40ہزار704ووٹ لے کرکامیابی حاصل کی تھی،اس ضمنی انتخاب میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری شبیر گجر سے ہوگا،رائے عامہ کے اب تک کے جائزے کی روشنی میں تحریک انصاف کو اس حلقے میں معمولی سی برتری حاصل ہے، لیگی امیدوار نذیر چوہان کو اس حلقہ میں فتحیاب ہونے کے لیئے کافی محنت کرنی ہوگی۔
پی پی168 لاہور
یہ حلقہ مسلم لیگ نون کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا ہے ، یہاں سے گزشتہ عام انتخابات میں وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق 34 ہزار 114 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے امیدوار صرف 14 ہزار 940 ووٹ لے سکے تھے، خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی کی رکنیت کو ترجیح دیتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے اس حلقے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے نتیجہ میں یہاں ضمنی انتخاب ہوا اور تحریک انصاف کے ملک اسدکھوکھر نے اس حلقے سے لیگی امیدوار کو معمولی برتری سے شکست دی، اس ضمنی انتخاب میں ملک اسد کھوکھر مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر انتخاب لڑرہے ہیں جہاں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے ملک نواز اعوان سے ہوگا، متعدد مقامی ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ اس حلقے میں مسلم لیگ نون کی پوزیشن کافی مستحکم ہے اور امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک اسد کھوکھر ہی یہاں سے کامیاب ہوں گے۔
پی پی170 لاہور
اس حلقے سے بھی مسلم لیگ نون نے پی ٹی آئی کے منحرف رکنِ اسمبلی محمد امین ذوالقرنین کو ٹکٹ جاری کیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں 25 ہزار 180 ووٹ لیکر لیگی امیدوار کو شکست دی تھی، امین ذوالقرنین کا تعلق بھی ترین گروپ سے ہے جن کے بھائی عون چوہدری وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی بھی ہیں،ان کا مقابلہ یہاں تحریک انصاف کے ملک ظہیر عباس کھوکھر سے ہوگا جو کہ اس حلقے میں سب سے مضبوط اور فیورٹ امیدوار سمجھے جارہے ہیں ، اب تک کے عوامی سروے یہی بتارہے ہیں کہ تحریک انصاف کے لیئے اس حلقے سے کامیابی حاصل کرنے کے امکانات کافی روشن ہیں۔
پی پی202 ساہیوال ۔ اس حلقے میں بھی ترین گروپ کے امیدوارمنحرف رکن اسمبلی ملک نعمان لنگڑیال کو مسلم لیگ نون نے انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے، نعمان لنگڑیال 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 57 ہزار 190 ووٹ لیکر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے ، ان کے مقابلہ میں لیگی امیدوار 44 ہزار 196 ووٹ حاصل کرسکے، مگر اس ضمنی انتخاب میں نعمان لنگڑیال مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں جہاں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار میجر (ر) غلام سرور سے ہوگا، مقامی ذرائع کے مطابق اس حلقے میں لیگی امیدوار نعمان لنگڑیال کی پوزیشن کافی مستحکم ہے، اگر کوئی اپ سیٹ نہ ہوا تو غالب گمان یہی ہے کہ مسلم لیگ نون اس حلقے میں فتحیاب ہوجائے گی۔
پی پی217 ملتان
یہ حلقہ گزشتہ عام انتخابات کی طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بھی سیاسی مبصرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ، 2018 کے عام انتخابات میں جہانگیر ترین کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سلمان نعیم نے اس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چار ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی تھی، بعدازاں سلمان نعیم تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے، اس ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون نے انہیں اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جہاں ان کا مقابلہ شاہ محمود قریشی کے فرزند زین قریشی سے ہوگا، توقع یہی کی جارہی ہے کہ اس حلقے میں بھی سخت سیاسی دنگل دیکھنے کو ملے گا مگر مقامی ذرائع اور حلقے میں کیئے جانے والے سروے جس عوامی رجحان کی نشاندہی کررہےہیں اس کے مطابق لیگی امیدوار سلمان نعیم کو زین قریشی پر معمولی سبقت حاصل ہے ، مسلم لیگ نون اس حلقے میں اگرچہ فیورٹ نظر آرہی ہے مگر حتمی طور پر جیت کی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا۔
پی پی224 لودھراں
ترین گروپ کے زوار حسین وڑائچ اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں ، انہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 60 ہزار 482 ووٹ لیکر مسلم لیگ نون کے پیر عامر اقبال شاہ کو شکست دی تھی، اس ضمنی انتخاب میں دونوں امیدوار ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں مگر مختلف ٹکٹوں پر، زوار حسین وڑائچ اب مسلم لیگ نون اور پیر عامراقبال شاہ تحریک انصاف کی جانب سے یہ انتخاب لڑرہے ہیں، اس حلقے میں تحریک انصاف آگے نظر آرہی ہے جس کی وجہ نون لیگ کو مقامی دھڑوں کی حمایت نہ ملنا ہے، لودھراں کی مقامی سیاست میں شہید کانجو گروپ کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے، کانجو گروپ کے صدیق بلوچ اس حلقے میں آزاد امیدوار سلیم اعوان کی حمایت کررہے ہیں جس سے مسلم لیگ نون کا ووٹ کافی تقسیم ہوگا اور اس کا فائدہ یقینی طور پر تحریک انصاف کے عامر اقبال شاہ کو پہنچے گا،مقامی ذرائع اور صحافیوں کا خیال یہی ہے کہ اس حلقے میں اگر اپ سیٹ نہ ہوا تو عامر اقبال ہی یہاں سے فتحیاب ہوں گے۔
پی پی228 لودھراں
منحرف رکن اسمبلی نذیر احمد بلوچ اس حلقے میں مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں، انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں 43 ہزار 169 ووٹ لیکر مسلم لیگ نون کے پیر رفیع الدین بخاری کو شکست دی تھی ، تحریک انصاف نے اس حلقے میں نسبتا کمزور امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے ، کیپٹن (ر) عزت جاوید اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں، مگر اس حلقے میں صورتحال دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوچکی ہے، اس حلقے سے تیسرے اہم ترین امیدوار کانجو گروپ کے حمایت یافتہ پیر رفیع الدین بخاری ہیں جو مسلم لیگ نون کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے کی بنا پر اب آزادحیثیت میں یہ انتخاب لڑرہے ہیں اور انہیں وزیرداخلہ برائے مملکت عبد الرحمان کانجو کی علانیہ حمایت بھی حاصل ہے، یوں یہ مقابلہ اب سہ جہتی رخ اختیارکرچکا ہے ، اس سیاسی تقسیم کا فائدہ یقینی طور پر پی ٹی آئی کو ہی پہنچے گا، مگر اس کے باوجود اس حلقے میں بھی اعصاب شکن مقابلے کی توقع کی جارہی ہے جس میں کسی بھی امیدوار کے حق میں فتح کی پیش گوئی کرنا فی الحال مشکل ہے۔
پی پی237 بہاولنگر
اس حلقے میں ملک فدا حسین مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں آزاد حیثیت سےالیکشن لڑتے ہوئے 56ہزار 411 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ، اس ضمنی انتخاب میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کےنووارد امیدوار سید آفتاب رضا سے ہوگا جوکہ صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں پہلی بار حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ملک فدا حسین متعدد بار آزاد حیثیت میں رکن اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں، الیکٹ ایبل ہونے کی وجہ سے انہیں ہی اس حلقے میں مضبوط امیدوارتصور کیا جارہا ہےاگرچہ ان کی فتح کا یقینی دعوی نہیں کیا جاسکتا مگر اس کے باوجود بعد تحریک انصاف کے لیئے یہ حلقہ جیتنا مشکل نظر آتا ہے ۔
پی پی272 مظفر گڑھ
زہرہ باسط بخاری اس حلقہ سے مسلم لیگ نون کی امیدوار ہیں جو کہ رکن قومی اسمبلی باسط سلطان بخاری کی اہلیہ ہیں، 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے آزاد امیدوار عبدالباسط سلطان بخاری 23 ہزار 587 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے مگر انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت کو ترجیح دیتے ہوئے صوبائی اسمبلی کی یہ نشست خالی کردی تھی، جس کے بعد ضمنی انتخاب میں ان کی والدہ سیدہ زہرہ بتول بخاری تحریک انصاف کے ٹکٹ پر فتحیاب ہوئیں، اس ضمنی انتخاب میں زہرہ باسط سلطان بخاری کا مقابلہ تحریک انصاف کے معظم علی جتوئی سے ہوگا، اس حلقے سے تیسرے اہم امیدوار سید ہارون سلطان بخاری ہیں جو کہ باسط سلطان بخاری کے بھائی ہیں اور اس حلقے سے ماضی میں تین بار رکنِ صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوچکے ہیں ،انہوں نے 2018 میں اپنے بھائی باسط سلطان بخاری کے خلاف الیکشن لڑا تھا، اس کے بعد ضمنی انتخاب میں اپنی والدہ کے مقابل انتخاب میں حصہ لیا، اور اب اس ضمنی الیکشن میں ہارون سلطان اپنی بھابی کے مقابلہ میں الیکشن لڑرہے ہیں، اس حلقے میں بخاری خاندان کے ووٹ بینک کی تقسیم کا فائدہ یقینی طور پر پی ٹی آئی کے معظم علی جتوئی کو ہی پہنچے گا یہی وجہ ہے کہ انتخابی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین اس حلقے میں جیت کے لیئے تحریک انصاف کے امیدوار کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔
پی پی 273مظفر گڑھ
پی ٹی آئی کے منحرف رکن اسمبلی سبطین رضا اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں جنہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 36009 ووٹ لیکرلیگی امیدوار کو 22 ہزار ووٹوں کے بھاری مارجن سے شکست دی تھی، اس ضمنی انتخاب میں لیگی امیدوار سبطین رضا کا مقابلہ تحریک انصاف کے یاسر عرفات جتوئی ، اور آزاد امیدوار ملک عبد العزیز سے ہوگا، اس حلقے میں بھی سہ جہتی مقابلے کی توقع کی جارہی ہے ، آزاد امیدوار ملک عبد العزیز نے گزشتہ عام انتخابات میں 22 ہزار 131 ووٹ حاصل کیئے تھے،اگرچہ یہاں مقابلہ تین امیدواروں کے درمیان ہے مگر امکان یہی ہے کہ یہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے درمیان کانٹے کا انتخابی دنگل سجے گا، ابتدائی مرحلہ میں مسلم لیگ نون یہاں پر آگے نظر آرہی تھی مگر علی پور میں عمران خان کے تاریخی جلسے نے حلقے کی سیاسی ہوا کو بدل دیا ہے جس کے بعد اب یہاں پی ٹی آئی اور نون لیگ کے درمیان برابر کے مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے، اگرچہ بعض مقامی ذرائع سبطین رضا کو فیورٹ بھی قرار دے رہے ہیں مگر ان کے لیئے یہ انتخاب جیتنا 2018 کی طرح آسان ہدف نہیں ہوگا۔
پی پی 282 لیہ ۔ اس حلقے سے طاہر رندھاوا مسلم لیگ نون کے امیدوار ہیں ، انہوں نے 2018 میں آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا اور 37 ہزار 607 ووٹ لیکر تحریک انصاف کے امیدوار قیصر عباس خان مگسی کو 11 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی، اور پھر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، اس ضمنی انتخاب میں ایک بار پھر طاہر رندھاوا کا حقیقی مقابلہ تحریک انصاف کے قیصر عباس خان مگسی سے ہوگا، اس حلقے میں بھی دونوں جماعتوں کے درمیان زبردست سیاسی معرکہ ہوگا، مگر بعض مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہاں تحریک انصاف کو معمولی سبقت حاصل ہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، پہلی وجہ سابق لیگی امیدوار محمد ریاض گرواں کا آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا ہے، اور انہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر 25 ہزار 556 ووٹ حاصل کیئے تھےاور اس ضمنی انتخاب میں بھی وہ گجر-گرواں اتحاد کے مشترکہ امیدوار کے طور پر انتخاب لڑرہے ہیں جس کے نتیجہ میں مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک منقسم اور اس کا فائدہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہوگا ، دوسری طرف اس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار کوسیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت سردار چنوں خان لغاری کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں قیصر عباس خان مگسی کی اس حلقے میں پوزیشن زیادہ بہتر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
پی پی288 ڈیرہ غازی خان
اس حلقے سے گزشتہ عام انتخابات میں آزاد امیدوار محسن عطا خان کھوسہ نے 39 ہزار 396 ووٹ لیکر تحریک انصاف کے سیف الدین کھوسہ کو شکست دی اور اس کے بعدانہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی، مگر محسن عطا خان اس ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لے رہے ، ان کی جگہ مسلم لیگ نون نے عبد القادر خان کھوسہ کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا ہے جو کہ رکن قومی اسمبلی امجد فاروق خان کھوسہ کے فرزند ہیں ، یہاں ان کا حقیقی مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار سیف الدین خان کھوسہ سے ہوگا جوکہ جنوبی پنجاب کے ایک بااثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد سردار ذولفقار خان کھوسہ پنجاب کے گورنر اور بھائی دوست محمد خان کھوسہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں، مقامی ذرائع کا یہی کہنا ہے کہ یہاں بھی اکثر حلقوں کی طرح دونوں جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے لہٰذا پیشگی طور پر کسی بھی امیدوار کے حق میں جیت کا دعویٰ کرنا قبل از وقت معلوم ہوتا ہے۔
پنجاب کے بیس انتخابی حلقوں کے نتائج کا اندازہ لگانے کے لیئے مختلف ٹی وی اینکرز اور صحافیوں نے مختلف حلقوں میں جاکر عوامی سروے کیئے جن میں معروف صحافی منیب فاروق، اجمل جامی، حبیب اکرم، اور اسداللہ خان ، سرِ فہرست ہیں ، ان حضرات کی طرف سے اب تک جتنے بھی حلقوں میں عوامی سروے کیئے گئے ہیں ان کے نتائج میں بھی ملا جلا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے،ہمارے ناقص تجزیہ کی روشنی میں تحریک انصاف اور نون لیگ کو اس وقت 6،6 نشستوں پر کہیں زیادہ اور کہیں معمولی ہی سہی مگر برتری حاصل ہے، مسلم لیگ نون کو بھکر،پی پی 90، لاہور،پی پی 158، پی پی 168، ساہیوال، پی پی 202، ملتان پی پی 217، اور بہاولنگر پی پی 237،میں برتری حاصل ہےتو پی ٹی آئی کو خوشاب پی پی83، جھنگ پی پی 127، لاہور پی پی 167، پی پی 170، لودھراں پی پی 224، اور مظفر گڑھ پی پی 272 میں معمولی سبقت حاصل ہے، باقی آٹھ انتخابی حلقوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان اعصاب شکن جوڑ پڑے گا ان آٹھ حلقوں میں جو جماعت الیکشن ڈے پر پولنگ اسکیم کی بہتر مینجمنٹ کرے گی وہی ضمنی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی، یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ عمران خان اس وقت اپنی 26 سالہ سیاسی جدوجہد میں میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں مگر اس مقبولیت کو ہی ووٹ میں تبدیل کرنا پی ٹی آئی کے لیئے ضمنی انتخابات میں سب سے بڑا چیلنج ہےجبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ نون کو الیکشن ڈے مینجمنٹ میں وہ مہارتِ تامہ حاصل ہے جس کا انکار کرنا ان کے سیاسی ناقدین کے لیئے بھی مشکل ہے ، اب جبکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بیس حلقوں کے حتمی نتائج آنے میں محض ایک ہی دن رہ گیا ہے ، پنجاب کا سیاسی منظرنامہ اور اس کے مستقبل کافیصلہ کیا ہوگا؟ کل رات تک تختِ لاہور کے سیاسی جانشین کا فیصلہ ہوسکے گا یا نہیں یہ سوال اپنی جگہ مگر اس سے بھی اہم ترین معاملہ ضمنی انتخابات کی شفافیت کا ہے، سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کی شکایات خود پی ڈی ایم میں شامل جمعیت ِ علماء اسلام کرچکی ہے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی غیرجانبداری اور خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے ہرقسم کے “مرئی اور غیر مرئی دباؤ” کو بالائے طاق رکھ کر، کیا شفاف انتخابات منعقد کرانے کی آئینی ذمہ داری پوری کرسکے گا یا نہیں؟ اس سوال کا مثبت جواب ہی بہتر رہے گا ورنہ منفی نتائج کے لیئے تیار رہیئے کیونکہ اس کا خمیازہ گرتی پڑتی معیشت کو ایک بار پھر بھگتنا پڑے گا۔یعنی وہی دھاندلی کا شور ہوگا! احتجاجی جلسوں کا زور ہوگا! پھر سے اِک دھرنے کا دور ہوگا! مزنی! خدا ہی جانے کس کا قصور ہوگا؟