The news is by your side.

پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے ملکی سیاست پر اثرات

گزشتہ شب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی دوسری بار پنجاب کے وزیرِاعلٰی قرار پائے ہیں۔ انہوں نے کل رات صدرِ مملکت ہاؤس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کا حلف اٹھایا ۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات
پنجاب کے بیس صوبائی حلقوں میں 17 جولائی کو ضمنی انتخابات کے بعد 22 جولائی کو اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے لیے رائے شماری کی گئی تھی جس میں پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الٰہی نے 186 جب کہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے متفقہ امیدوار حمزہ شہباز شریف نے 179 ووٹ حاصل کیے مگر پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے لکھے گئے ایک خط کو بنیاد بناتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو وزیرِاعلیٰ پنجاب قرار دیا تھا۔ ڈپٹی اسپیکر کی اس رولنگ کے خلاف پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے ایک فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے حلف لینے کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے 11 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے آئین کی شق 63 اے کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی جو تشریح کی وہ درست نہیں ہے، فیصلے میں حمزہ شہباز شریف کو فی الفور وزارتِ اعلیٰ کا منصب چھوڑنے اور پنجاب کابینہ کو تحلیل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ حمزہ شہباز شریف اور دوست محمد مزاری کے وکلاء نے مقدمہ کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی جو استدعا کی اس میں بھی وہ ٹھوس قانونی وجوہات بیان کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پنجاب کے چیف سیکریٹری کامران افضل نے پرویز الٰہی کی کام یابی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر حزبِ اختلاف اور حکومتی اتحاد کا ردِ عمل
سپریم کورٹ کے فیصلے پر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور راہ نماؤں، تجزیہ کاروں اور مبصرین نے مختلف آرا کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس فیصلے اور اپنی فتح پر قوم کا شکریہ ادا کیا جب کہ حکومتی اتحاد کے قائدین کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کہا، “پاکستان کو تماشا بنا دیا گیا ہے، تینوں جج صاحبان کو سلام۔” وزیرِ اعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اعلیٰ عدلیہ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا،” آئین نے ریاستی اختیار پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کو تفویض کیے ہیں، آئین نے سب اداروں کو متعین حدود میں کام کرنے کا پابند کیا ہے۔” انہوں نے کہا کہ “کوئی ادارہ کسی دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتا، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، عدلیہ کی ساکھ کا تقاضا اور قرین انصاف یہی تھا کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تاکہ انصاف نہ صرف ہوتا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا لیکن عدالتی فیصلے سے قانون دان برادری، سائلین، میڈیا اور عوام کی حصول انصاف کے لیے توقعات کو دھچکا لگا ہے۔” اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اس فیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے “جوڈیشل کُو اور انصاف کا قتل” قرار دیا۔ حمزہ شہباز شریف نے اس عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ،”فل کورٹ کی استدعا مسترد کر کے غیر جانب داری کے اصول پر شب خون مارا گیا ہے، پانامہ فیصلے کا تسلسل انصاف ہرگز نہیں ہے۔”

حالیہ فیصلے کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوسسکتےہیں؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی سیاسی فتح ہے اور ایک طویل انتظار کے بعد پرویز الٰہی کو یہ موقع ملا ہے کہ پنجاب میں اتحادی جماعت تحریکِ انصاف کے ساتھ مل کر “گڈ گورننس” کے ذریعے آنے والے عام انتخابات میں اپنی کام یابی کے امکانات کو بڑھا سکیں، مگر اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا مکمل دارومدار پاکستان تحریکِ انصاف کی مستقبل کی سیاسی حکمتِ عملی پر موقوف ہے، تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد سے پی ٹی آئی ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا مطالبہ کررہی ہے۔ سربراہ تحریکِ انصاف عمران خان سیاسی بحران اور معاشی عدم استحکام کا واحد حل فوری عام انتخابات کو قرار دیتے ہیں۔ کیا وفاقی حکومت ان کے اس مطالبہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرے گی؟ بظاہر اس کا جواب نفی میں معلوم ہوتا ہے مگر پنجاب میں سیاسی شکست کے بعد مرکز میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جس کے لیے پہلے ہی روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر اور رو بہ زوال معیشت ایک چیلنج بنا ہوا ہے اور تختِ لاہور گنوانے کے بعد پی ڈی ایم کے لیے وفاق میں حکم رانی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

سیاسی مبصرین بھی اب قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کو تمام سیاسی اور معاشی چیلنجز کا حل قرار دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کیا سیاسی حکمتِ عملی اختیار کرے گی؟ جہاں عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے لیے وفاقی حکومت پرسیاسی دباؤ ڈال سکتے ہیں، وہیں ان کی طرف سےایک بار پھر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان ہوا تو پی ڈی ایم کے لیے مرکز میں حکومت قائم رکھنا آسان نہیں ہوگا مگر قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ بہرحال اس اتحادی حکومت کو ہی کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب میں بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مولانا فضل الرّحمن نے اتحادی جماعتوں کا اجلاس بروز جمعرات(کل) اسلام آباد میں طلب کرلیا ہے جس کے بعد ان کی طرف سے مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں