The news is by your side.

ممنوعہ فنڈنگ کیس: فیصلے کے قانونی پہلو اور سیاسی مضمرات

گزشتہ روز ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سامنے آیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریکِ انصاف کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر ممنوع فنڈز وصول کرنے کا الزام ثابت ہو گیا ہے اور یہ فنڈز ضبط کرنے کا باضابطہ فیصلہ اظہارِ وجوہ کے نوٹس کی سماعت کے بعد کیا جائے گا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس کا پس منظر اور تحریری فیصلے کے اہم نکات
کم و بیش آٹھ برس قبل پاکستان تحریکِ انصاف کے منحرف بانی رکن اکبر شیر بابر نے ممنوعہ فنڈنگ کے خلاف ایک مقدمہ الیکشن کمیشن میں دائر کیا تھا۔ اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی شہریوں کے علاوہ غیر ملکی افراد اور کمپنیوں سے فنڈز وصول کیے ہیں جس کی پاکستان کے آئین میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس درخواست پر تحریکِ انصاف کے سیاسی مخالفین نے ابتداء میں زیادہ سخت ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا مگر جوں ہی پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مخالف سیاسی جماعتوں کو اپنا ہدفِ تنقید بنایا تو ردِعمل میں تحریکِ انصاف کے سیاسی مخالفین بشمول پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا جلد فیصلہ سنانے کے لیے الیکشن کمیشن پر سیاسی دباؤ میں اضافہ کر دیا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے گزشتہ آٹھ برس میں اس کیس کی سماعت کے دوران متعدد بار الیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیار کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے عدالت کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ اکبر ایس بابر کا دائر کردہ مقدمہ نہ تو قابلِ سماعت ہے اور نہ ہی قانونی طور پر الیکشن کمیشن کو پارٹی کے مالی کھاتوں کی تحقیقات کا اختیار حاصل ہے مگر درجنوں سماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن نے رواں برس جون میں مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ یہ تحریری فیصلہ 68 صفحات پر مشتمل ہے اور گزشتہ روز تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔

اس تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو 34 غیر ملکی شہریوں اور 351 غیر ملکی کمپنیوں سے موصول ہونے والے فنڈز غیر قانونی ہیں‌ اور یہ ممنوعہ فنڈنگ ہے۔ تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن نے سربراہ تحریکِ انصاف عمران خان کی طرف سے جمع کرائے گئے تحریری بیانات کو بھی غلط اور حقائق کے منافی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے سیاسی جماعتوں کے قانونی ضابطۂ اخلاق کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کو ممنوعہ فنڈز کے حوالے سے اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا ہے۔

فیصلے پر سیاسی جماعتوں کا ردِ عمل
یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد ایک طرف حکمراں اتحاد اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اسے اپنی سیاسی فتح قرار دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کررہی ہیں اور دوسری طرف مرکز میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا برملا اظہار کر رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ یہ “فارن فنڈنگ” نہیں ہے اور آج الیکشن کمیشن نے بھی اپنے فیصلے میں یہی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس 2008 سے 2013 تک کی پارٹی فنڈنگ سے متعلق تھا، نہ صرف اس دوران پارٹی کی زیادہ تر فنڈنگ کا انحصار بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی گئی رقم پر تھا بلکہ مستقبل میں بھی تحریکِ انصاف انہی پاکستانی شہریوں سے پارٹی کے لیے عطیات جمع کرے گی۔ انہوں نے کیس کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریری فیصلے میں جن 16 اکاؤنٹس کو خفیہ قرار دیا ہے ان تمام ہی مالی کھاتوں کا چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بیانِ حلفی پر الیکشن کمیشن کی رائے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان یہ واضح کرچکی ہے کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک انتظامی ادارے کی ہے جسے عدالت کا درجہ حاصل نہیں ہے لہٰذا تحریری فیصلے میں عمران خان کے بیانِ حلفی کو غلط قرار دینا آئینی حدود اور دائرۂ کار سے تجاوز ہے جسے قانونی طور پر درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان تحریک انصاف کے راہ نما فرخ حبیب نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان واقعی غیرجانب دار ادارہ ہے تو اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کا فیصلہ بھی ساتھ ہی سنانا چاہیے تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم مسلسل موجودہ الیکشن کمیشن سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اس وقت مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے خلاف بھی مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کرنے سے متعلق درخواستیں زیرِ سماعت ہیں۔ یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ اس سے قبل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی تحریکِ انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی تحقیقات پر زور دیتے ہوئے یہ آبزرویشن دے چکے ہیں کہ غیرملکی فنڈنگ کا جملہ سیاسی جماعتوں کو حساب دینا ہو گا۔

اس طرح دیکھا جائے تو پہلے سے متنازع الیکشن کمیشن آف پاکستان کو گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے مستقبل قریب میں تمام سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے متعلق درخواستوں کی سماعت مکمل کرکے جلد از جلد ان کا فیصلہ بھی جاری کرنا چاہیے۔ اس حوالہ سے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پابند ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات سے قبل دیگر سیاسی جماعتوں کی مبینہ ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ کرے۔

دوسری طرف حکمران اتحاد اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کو سربراہ تحریک انصاف عمران خان کے خلاف چارج شیٹ قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتیں اس فیصلے کی روشنی میں اب عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کررہی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کیس کے فیصلے پر کہا کہ یہ عمران خان کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ، آئین کی خلاف ورزی، اور جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرانے کی چارج شیٹ ہے، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہ نما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے بیانِ حلفی کو جھوٹا قرار دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کون صادق اور امین ہے؟ عوامی نیشنل پارٹی کے قائد اسفند یار ولی نے اس فیصلے کے بعد یہ مطالبہ کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق بلا تفریق کیا جائے۔

عمران خان کا سیاسی مستقبل اور ممکنہ نااہلی کے اثرات
ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد بعض قانونی ماہرین اور سیاسی مبصرین کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی روشنی میں سربراہ تحریکِ انصاف عمران خان کی ممکنہ نااہلی کا خیال ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس کی بنیاد عمران خان کا وہ بیانِ حلفی ہے جسے الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں غلط اور برخلافِ حقائق قرار دیا ہے مگر اس کی حیثیت فی الوقت ایک خیال سے زیادہ نہیں ہے۔ مستقبل قریب میں کیا ہو گا، یہ تو چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گا مگر اس امر سے انکار کرنا بھی مشکل ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس نے تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے تحریکِ انصاف پر پابندی عائد کیے جانے کی قیاس آرائی بھی کی ہے۔

ملک کی سیاسی تاریخ میں متعدد جماعتوں پر غیرملکی فنڈز وصول کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں اور نیشنل عوامی پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت ہےجس پر ممنوعہ فنڈنگ کاالزام ثابت ہوجانے کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس جماعت کی بنیاد سنہ 1958 میں عبد المجید خان بھاشانی نے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں رکھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں “غداری” اور بھارت سے فنڈز لینے جیسے سنگین الزامات کے بعد اس جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

نیشنل عوامی پارٹی کے بعد کسی جماعت کو اس الزام کے تحت پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے، مگر بعض سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ اب عمران خان کے سَر پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ معروف تجزیہ نگار اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح عوام میں مقبول لیڈر کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو ملکی سیاست پر اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھیں‌ تو سہیل وڑائچ کے اس تجزیے کو تقویت ملتی ہے۔ اگرچہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ تحریکِ انصاف کے خلاف ہے مگر اقوامِ عالم کی جمہوری تاریخ بتاتی ہے کہ وہ فیصلے کبھی مقبول نہیں‌ ہوئے جنہیں عوام کی تائید حاصل نہ ہوسکی۔ ایسا ہی ایک “آئینی اور قانونی فیصلہ” تحریکِ عدم اعتماد تھا جس کے ذریعہ عمران خان کو مسندِ اقتدار سے اتارا گیا، مگر یہ بھی سب نے دیکھا کہ اس “آئینی اور قانونی بندوبست” کو عوام نے قبول نہیں کیا، دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے پی ٹی آئی کی حمایت میں ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کیے اور پنجاب کے ضمنی انتخابات ہوئے تو عوام نے ووٹ کی طاقت سے پی ڈی ایم کی تحریکِ عدم اعتماد پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ اگر ایک بار پھر عمران خان اور ان کی جماعت کو “قانونی موشگافیوں” کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی تو اس کا فائدہ بھی “سیاسی ہمدردی” کی صورت میں عمران خان کو ہی پہنچے گا اور اس طرح ان کا “سازش” کا بیانیہ توانا ہوگا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم اور اس کے اتحادی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کی نااہلی کے لیےعدالتِ عالیہ سے رجوع کریں گے یا پھر امیدوں کے برخلاف فیصلہ آنے کے خوف سے محض اسی فیصلے پر اکتفا کرتے ہوئے ایک ایسا “سیاسی بیانیہ” تشکیل دینے کی کوشش کریں گے جس سے عوام میں عمران خان کے صادق اور امین ہونے کے قوی تاثر کو مجروح کیا جاسکے۔

Kaynak : antalya haber

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں