The news is by your side.

ن لیگ کو ہوم گراؤنڈ پر “تاریخی شکست”، کیا شریف خاندان کے “بچے” ناکام ہوگئے؟

بالآخر وہ معرکہ انجام پایا جس کا پورے ملک میں شور تھا، یعنی 17 جولائی کو پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوگئے۔

اس ضمنی الیکشن سے قبل ملک بھر میں گھر ہو یا دفتر، دوستوں کی محفل ہو یا کاروباری ملاقات اور بات چیت، شادی کی تقریب ہو یا جنازے کا اجتماع ہر جگہ صرف ایک ہی بحث ہورہی تھی کہ 17 جولائی کو کیا ہوگا؟ عوام نے تو اب اپنا فیصلہ سنا دیا لیکن جو فیصلہ عوام کی جانب سے سنایا گیا ہے وہ حکومت اور اس کی 12 اتحادی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اور کسی کو بھی معمولی سا گمان نہیں تھا کہ ن لیگ اپنے صوبے میں اس عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگی۔ 2 روز قبل ہونے والی اس شکست پر 48 گھنٹوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ہر شخص نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ہم اس بلاگ میں ن لیگ کی اس حیران کن اور تاریخی شکست کی وجوہات پر لب کشائی سے قبل نوجوان نسل کو بتا دیں کہ ن لیگ کا حال ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ملک میں صرف ن لیگ ہی ن لیگ تھی۔

یہ 1996 کی بات ہے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سیاست میں تاریخ رقم کرتے ہوئے ملک بھر سے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ دوسری بار اسلام آباد میں اپنی حکومت بنائی اور نواز شریف نے دوسری بار وزیراعظم کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس دو تہائی اکثریت پر مختلف سوالات اٹھائے گئے لیکن سیاست میں کامیابی بڑی ہو یا چھوٹی سوالات اٹھائے جانے کا رواج رہا ہے۔ لہذا ان سوالات سے صرف نظر یہ ن لیگ کی سب سے بڑی کامیابی تھی جب وہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر حکومت میں آئی تاہم وہ اس دو تہائی اکثریت کا بوجھ زیادہ عرصہ نہیں اٹھاسکی اور خود اپنے ہی من مانے فیصلوں کے بوجھ تلے دب گئی۔ لیکن 1996 میں پاکستان کی سیاست میں ایک یہی تاریخ رقم نہیں ہوئی بلکہ لگ بھگ اسی سال ملک کے سیاسی نقشے پر ایک نئی جماعت “تحریک انصاف” کے نام سے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی قیادت میں قائم ہوئی۔ لیکن صرف 26 سال کے مختصر عرصے میں، مختصر اس لیے کہ انفرادی زندگی میں یہ عرصہ ایک طویل عرصہ گردانا جاتا ہے لیکن سیاست اور قوموں کی تاریخ میں 26 سال کا عرصہ مختصر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ صرف 26 سال قبل قائم ہونے والی سیاسی جماعت نے ایسا کیا کیا کہ اس نے اپنی سیاسی پیدائش کے وقت کی سب سے مقبول عام جماعت کو اس انجام سے دوچار کردیا۔

پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق 15 نشستیں پی ٹی آئی نے حاصل کیں۔ 4 ن لیگ اور ایک آزاد امیدوار کے حصے میں آئی جس میں ن لیگ کی پی پی 7 پنڈی کی ایک نشست پر ابھی سوالیہ نشان ہے کہ اس کو پی ٹی آئی کے امیدوار نے چیلنج کیا ہوا ہے اور اس پر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رکھی ہے جس پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس سیٹ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اس وقت نمبر گیم میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی ق لیگ کے پاس 188 ووٹوں کے ساتھ اپنا وزیراعلیٰ یعنی چوہدری پرویز الہٰی کو لانے کے لیے نمبر گیم پورا ہے۔ جب کہ ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس 179 نمبرز ہیں۔ بہرحال ضمنی الیکشن کا نتیجہ مسلم لیگ ن جیسی جماعت جس کو لیگی رہنما ملک کی سب سے بڑی جماعت گردانتے ہیں اس کے ہرگز ہرگز شایان شان نہیں اور وہ بھی اس صورتحال میں کہ جب یہ الیکشن پی ٹی آئی بمقابلہ 13 اتحادی جماعتوں کے درمیان ہو۔ حکومت بھی اپنی ہو، انتظامیہ بھی ماتحت اور پی ٹی آئی الزامات کے مطابق الیکشن کمیشن بھی پارٹی بنا ہوا ہو۔

نتائج کا غیر سرکاری اعلان ہونے کے بعد جتنے منہ اتنی ہی باتیں اکثر اسے عمران خان کے سازشی تھیوری اور رجیم چینج بیانیے کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پنجاب کے نتائج پر عمران خان کا یہ بیانیہ بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اسے صدق دل سے قبول بھی کیا لیکن کیا یہی ایک وجہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فتح اور شکست کا پیش خیمہ ہر دو فریق کی فہم وفراست اور نااہلی اور کوتاہی ہوتی ہے۔ اگر ہم یہاں صرف عمران خان کے بیانیے کو فتح گر جانیں تو یہ حقیقت کے منافی ہوگا۔

اگر ہم یہاں شکست خوردہ مسلم لیگ ن کی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں تو ایک طویل فہرست نظر آتی ہے مختصراً یہ کہ ن لیگ جو سابق وزیراعظم نواز شریف کی برطرفی اور سزا کے بعد اینٹی اسٹبلشمنٹ اور ووٹ کو عزت دو کے ساتھ عمران خان کو “سلیکٹڈ” کے طعنے کا بیانیہ لے کر چلی تھی اور عوام بھی اس کی ہمنوا ہو رہی تھی بالخصوص پنجاب کی جس کا نمایاں اثر عمران دور حکومت میں اس بڑے صوبے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی سامنے آیا جب ن لیگ نے تواتر سے پی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن پھر رواں سال اپنے اسی بیانیے سے یوٹرن لیا اور اینٹی اسٹبلشمنٹ جماعت کے طور پر عوام میں اپنا امیج بنانے والی جماعت اسٹبلشمنٹ کے گن گانے لگی۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس وقت ہی دفن کردیا جب اس نے وفاق میں اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ہوس اقتدار میں پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے ووٹوں کو عزت دینے کے بجائے لالچ کے ترازو میں تولنا شروع کیا۔ ن لیگ نے یوں سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت قائم کر لی جو اب ان نتائج کے مطابق صرف دو دن کی مہمان لگتی ہے۔ رہا سلیکٹڈ کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس کو تار تار یوں کیا کہ مخالف کو سلیکٹڈ بولنے والی خود سلیکٹڈ بن گئی۔

اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو شاید نتیجہ یکسر مختلف نہ ہوتا تو کچھ بہتر ضرور ہوتا مگر نہ جانے کیا سوجھا کہ ن لیگ نے اپنی پرانی اس مقامی قیادت کو جو سالوں تک ان حلقوں سے الیکشن لڑ کر ایوانوں میں مسلم لیگ ن کا علم بلند کرتے رہے اور اپنے دیرینہ ووٹرز، سپورٹرز کو نظر انداز کرکے 20 میں سے 18 نشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف جنہیں اب ملک کے طول وعرض میں لوٹوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے انہیں ٹکٹ دیا۔ جس نے پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکنوں میں مایوسی کو جنم دیا اور یوں ن لیگ کے اپنے سیاسی یوٹرن اسے ہی لے ڈوبے جس کا اعتراف کئی ن لیگی رہنما کرچکے کہ عوام نے ن لیگ کو نہیں لوٹوں کو مسترد کیا ہے۔

دوسری اہم وجہ ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کا عمران حکومت کے دوران ہونے والی مہنگائی اور بدانتظامی پر شور مچانا تھا۔ جب یہ حکومت میں آئے تو عوام کی ان سے توقعات بجا تھیں کہ جن باتوں پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں شور ڈالتی تھیں اب خود اقتدار میں اس کا تدارک کرتے ہوئے عوام کو کچھ ریلیف دیں گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ ریلیف کیا ملنا تھا الٹا عوام کو دن میں تارے دکھا دیے مہنگائی کی صورت میں۔

ن لیگ کے قائد نواز شریف “علاج” کے لیے لندن میں ہونے اور پارٹی صدر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہونے کے باعث انتخابی مہم کے لیے دستیاب نہ تھے اس لیے پنجاب ضمنی الیکشن کے لیے مہم چلانے کا تاج ایک بار پھر ن لیگ نے مریم نواز کے سر سجایا۔ یہ تیسری باری تھا جب انہیں یہ اہم ذمے داری ملی لیکن جس طرح انہوں نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر الیکشن میں جلسے اچھے کیے لیکن ن لیگ کو ناکامی ملی اسی طرح پنجاب ضمنی الیکشن میں یہ تیسرا اسائنمنٹ بھی مریم نواز نے بری طرح سے ہار کر ثابت کردیا کہ وہ بڑا عوامی مجمع تو اکٹھا کرسکتی ہیں لیکن پولنگ کے دن ووٹر کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک لانے کی صلاحیت ابھی ان میں کم ہے۔ ایک وجہ ان کا بیانیہ بھی رہا جو بدل کر انہوں نے “خدمت کو ووٹ دو” اسی دوران حمزہ شہباز بھی سرگرم رہے گوکہ وہ وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے علی الاعلان تو انتخابی مہم کا حصہ نہ بنے لیکن وقتاً فوقتاً عوامی ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے مریم نواز کا ہاتھ بٹانے کی ضرور کوشش کی صرف یہی نہیں بلکہ ایاز صادق، اویس لغاری سمیت کئی وزرا کو انتخابی مہم چلانے کے لیے مستعفی کرایا لیکن الٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ استعفوں نے کام کیا کے مترادف نتائج حسب توقع نہ آسکے۔ ن لیگ نے جس طرح ان ڈھائی تین ماہ میں عوام کی خدمت کی تو عوام نے بھی ادھار نہ رکھا اور اس کا بھرپور جواب انہیں دے دیا۔

کیونکہ پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن کی ذمے داری شریف خاندان کے ان ہی “بچوں” کے سر پر تھی تو ناکامی کے ذمے دار بھی یہ “بچے” ہی گردانے جائیں گے۔ اب ملک کی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا تاہم بلاگ تحریر کیے جانے تک 13 جماعتی حکومتی اتحاد نے یہ تو طے کرلیا تھا کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی۔

سیاسی تجزیہ کار پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی کو 2018 کے عام انتخابات کی کامیابی سے بڑا مان رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ 2018 کے نتائج پر مخالفین کو اعتماد نہیں تھا لیکن یہ نتائج تو پی ٹی آئی کی تمام مخالف جماعتیں تسلیم کر رہی ہیں اسی کے ساتھ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حکومت کے پاس نئے الیکشن میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ عمران خان کے پاس ملک کا سب سے بڑا صوبہ آچکا ہے اور وہ جو پہلے ہی مزاحمت کی سیاست بھرپور انداز میں چلا رہے ہیں اب حکومت پر اپنا دباؤ مزید بڑھائیں گے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں