The news is by your side.

کوئلے کی دھول پاکستان میں بچوں کی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے

بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں کے بچے اپنے والدین کے پیشے کی قیمت ادا کر رہے ہیں

صبح کی خشک ہوا ہے، گہرے سرمئی بادل چھائے ہوئے ہیں اور بچے اپنے مٹّی اور اینٹوں کے گھروں کے باہر ننگے پاؤں کھیل رہے ہیں۔

دوکی معدنیات سے مالا مال ضلع ہے اور پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ دوکی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 230 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کوئلے کی کان کنی سے نکلنے والے دھول کے اخراج سے صحّتِ عامّہ کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود خیبر پختونخوا اور پڑوسی ملک افغانستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاندان کوئلے کے ان میدانوں کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔

“میرا خاندان کوئلے کی دھول اور کالے دھوئیں میں سانس لے رہا ہے، لیکن میرے پاس کوئلے کے اس میدان میں رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایک بڑی تعداد میں مقامی بچے پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا ہو کر اسپتال آتے ہیں۔” یہ بات عطا محمد نے کہی جو کوئلے کے سیکڑوں کارکنوں میں سے ایک ہیں اور دوکی کے مضافات میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ سات بچوں کے باپ ہیں اور ان کے چار بچے سینے کے انفیکشن میں مبتلا ہیں اور وہ اکثر ان کا علاج کروانے کے لیے مقامی اسپتال جاتے ہیں۔

پاکستان کوئلے کی کان کنی سے فائدہ اٹھا رہا ہے، لیکن اس علاقے کے بچوں کی صحت خطرے میں ہے

کوئلہ جسے مقامی لوگ ” کالا سونا ” کہتے ہیں، پاکستانی صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں اور توانائی کے شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کمائی کے اس طریقے کا نقصان یہ ہے کہ ان کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں کے بچے نہایت اذیت میں مبتلا ہیں، کیونکہ وہ زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔ بالائی سطح پر موجود کوئلے کی کان کنی کی جگہوں کے قریب رہنے والے بچوں میں دمہ اور سانس کی دیگرعلامات کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔ مقامی معالجین کے مطابق کوئلے کی دھول کے باعث بچے سانس لینے میں دشواری اور سینے میں انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔

پاکستان کا تقریباً 50 فیصد کوئلہ معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں پیدا ہوتا ہے اور کوئلے کی کان کنی صوبے کی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن ٹریڈ یونین کے صوبائی نائب صدر امبر خان یوسف زئی کا کہنا ہے کہ دوکی اور چمالنگ میں کوئلے کی کانوں میں 15,000 سے 20,000 مزدور کام کرتے ہیں، جن میں سے اکثرغیر منضبط ہیں اور تقریباً 5000 سے6000 خاندان ان سیکڑوں کانوں کے قریب رہتے ہیں۔ چمالنگ کی کانیں خطے کی سب سے بڑی کانیں ہیں۔

ساٹھ سالہ عبدالرحمان نے کوئلے کی صنعت میں 26 سال تک کام کیا، لیکن دمے کی بیماری کے بعد گہری کانوں میں کھدائی کرنے سے قاصر رہا۔ اس نے متبادل کیریئر تلاش کیا اور اب وہ دوکی بازار میں جوتے اور چپل بیچتا ہے۔ “میں آٹھ بچوں کا باپ ہوں۔ میرے دو بچوں کو سانس کی بیماریاں ہیں جن میں سے ایک پانچ سال اور دوسرا نو سال کا ہے۔ مجھے مقامی ڈاکٹروں سے بنیادی علاج پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ میرے سارے بچوں میں سے صرف ایک ہی بچہ اسکول جاتا ہے۔” انہوں نے نیلا انہیلر استعمال کرتے ہوئے کہا۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کان کنی کرنے والی کمپنیاں اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہیں

دوکی ضلع سے تعلق رکھنے والی تین بچوں کی ماں نور بی بی کو بھی ایسا ہی تجربہ ہوا ہے۔ ان کے شوہر نے 13 سال کان کنی کی صنعت میں کام کیا ہے، لیکن اب وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں جن کی عمر سات سے نو سال کے درمیان ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے پھیپھڑوں کی بیماری کا شکار ہیں۔ اسکول جانے کے بجائے یہ بچے سارا دن کانوں کے قریب کثافتوں کے ڈھیر میں کوئلے کے ٹکڑے تلاش کر کے گھرمیں لاتے ہیں جو کہ ایندھن جلانے کے کام آتا ہے۔ ”پورا علاقہ گرد اور دھوئیں سے بھرا ہوا ہے۔ بارش بھی نہیں ہوتی۔ کان کی کمپنیوں کے مالک بھی غریب لوگوں کی مدد نہیں کرتے۔ میں اپنے بچوں کی صحت اور تاریک مستقبل کی وجہ سے پریشان ہوں۔” بی بی نے اپنے گالوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

یوسف زئی نے کہا کہ صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے مزدوروں کے بچے بیمار ہو جاتے ہیں۔ ”بچوں کی صحت اور تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو صحت کے مراکز کو مکمل طور پر فعال کرنا چاہیے۔ ایک ماہرِ اطفال کو کان کے مزدوروں کے بچوں کے لیے مقرر کرنا چاہیے کیونکہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی آمدنی بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کا اچھے طریقے سے علاج نہیں کروا سکتے۔”

مائنز ایکٹ 1923 کے تحت مائنز اور منرلز ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ بلوچستان کی شاخ مائنز لیبر ویلفیئر آرگنائزیشن کان کے مزدوروں اور اُن کے بچوں کی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود کی ذمے دار ہے۔ بہرحال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سائٹ پر صحت کی دیکھ بھال برائے نام ہی ہے۔

دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے، دوکی کول فیلڈ کے مائنز انسپکٹر صابر شاہ کا کہنا ہے کہ کول مائنزریگولیشنز 1926 اور مائنز ایکٹ 1923 کے تحت 18 سال سے کم عمر کا بچہ کان کنی کے علاقے میں مزدور کے طور پر کام نہیں کر سکتا چاہے وہ زیر زمین کام ہو، سطح پر ہو یا کوئلے اٹھانے کا کام ہو۔

شاہ کہتے ہیں”اگر کوئی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا جاتا ہے تو جانچ کے بعد ایک مائنز انسپکٹر مقدمہ درج کرتا ہے اور اسے چیف مائنز انسپکٹر کے ذریعے جوڈیشل مجسٹریٹ کے دفتر میں جمع کراتا ہے، جہاں قانون کے مطابق اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔”

شاہ کا کہنا ہے کہ محکمہ مائنز کے لیبر ونگ نے کان کنی کے تمام علاقوں میں صحت کی سہولیات کا بیمہ کرایا ہے جہاں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور، ان کے خاندان کے افراد اور بچوں کے سینے کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

تاہم مقامی لوگ اس کو ایک مختلف حقیقت سے جوڑتے ہیں۔ “ہم ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جو کوئلے کی کانوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں کالا دھواں ہے کیونکہ لوگ کھانا پکانے اور گرم کرنے کے لیے اپنے گھروں میں کوئلہ جلاتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے زیادہ تر بچے متاثر ہوتے ہیں، جیسا کہ میرا بیٹا بھی متاثر ہے۔” محمد عارف نے بتایا جو دوکی میں ٹائروں کی مرمت کی دکان چلاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں رہنے والے مزدور نہ تو شہر میں کرائے کے مکانات کی لاگت برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بیمار بچوں کا کوئٹہ کے بڑے اسپتالوں میں علاج کروا سکتے ہیں۔

مقامی لوگ تپِ دق اور دمہ سے خوفزدہ ہیں
محمد عظیم جو ایک ڈاکٹر اور دوکی میں شارٹ کورس (ڈاٹس) تپِ دق (ٹی بی) کنٹرول پروگرام کے براہ راست مشاہدہ کے سہولت کار ہیں، کہتے ہیں کہ کوئلہ کے کانوں میں کام کرنے والے زیادہ تر ٹی بی کا شکار ہیں، جو خاندان کے دیگر افراد میں بھی پھیلتا ہے کیونکہ یہ ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے۔ کوئلے کی دھول میں پرورش پانے والے بچے آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں اور ضلع کے دیگر علاقوں کے بچوں کے مقابلے ان میں سانس کی علامات زیادہ ہوتی ہیں۔ “زیادہ تر مریض نابالغ ہیں۔ غربت، گندگی کے ماحول میں رہنا اور صحت کی سہولیات کا نہ ہونا ایسے عوامل ہیں جو ٹی بی کے مرض کو پھیلاتے ہیں۔” عظیم نے وضاحت کی۔

“عالمی سطح پر کوئلے کے کان کنوں میں ٹی بی کے واقعات عام آبادی کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہیں۔ ” احمد ولی جو کوئٹہ میں ٹی بی کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر اور آفیسر ہیں، نے کہا۔ “بلوچستان کے کوئلے کے میدانوں میں کوئلے کی دھول کا ارتکاز بہت زیادہ ہے۔ اور اس کی وجہ ماحولیاتی قوانین کا غیر مؤثر اطلاق اور صحیح طریقے سے نگرانی کا نہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ کوئلہ کان کنوں اور کان کے مالکان کی طرف سے اپنائے جانے والے حفاظتی اقدامات کی کمی اس صورت حال کو اور بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ ”ٹی بی کنٹرول پروگرام بلوچستان کے پاس نگہداشت کی سہولت ڈی ایچ کیو اسپتال دوکی میں موجود ہے لیکن بیماری سے متاثر افراد کی تعداد کے مقابلے میں سہولیات کا بہت زیادہ فقدان ہے۔” ولی نے کہا۔

“اسپتال کے بیرونی مریضوں کے شعبے میں 70 سے 80 مریضوں کا روزانہ معائنہ کیا جاتا ہے جس میں سے نصف بچے ہیں،” عظیم نے تصدیق کی۔ ” 40 میں سے 30 بچے عام طور پر سینے کے انفیکشن، دمہ اور الرجیز کا شکار ہیں۔”

کوئلے کے کان کنوں کے پھیپھڑوں کا مرض (CWP) کوئلے کے کارکنوں کا نیوموکونیوسس جسے سیاہ پھیپھڑوں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے، کان کنوں کے بچوں میں عام ہے۔

“پھیپھڑوں کی دو بیماریاں CWP اور COPD ( یعنی پھیپھڑوں کی دائمی رکاوٹ کی بیماری) زیادہ تر کوئلے کی کان کی دھول کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کوئلے کے کان کنوں کو اس کے ساتھ ساتھ سلیکا آمیز دھول کا سامنا بھی رہتا ہے جو پھیپھڑوں کی سوزش جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔” ڈاکٹر ولی نے بتایا۔

کراچی یونیورسٹی کے ادارہ برائے ماحولیاتی مطالعہ کے اسسٹنٹ پروفیسر وقار احمد کا کہنا ہے کہ جب کوئی بچہ گرد و غبار سے بھری ہوا میں سانس لیتا ہے تو اس سے ان کے نظام تنفس پر برا اثر پڑتا ہے اور اس سے الرجی ہوتی ہے۔ بچے زیادہ خطرے سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ہوا کے راستے بڑوں کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے سوزش کے نتیجے میں ان کا دم گھٹ سکتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کی عدم دستیابی
کوئٹہ میں صوبائی محکمہ ماحولیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شیخ خالق داد مندوخیل کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے دوکی کے علاقے میں ماحولیاتی اثرات کی تشخیص کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔” ماحول سے متعلق کسی بھی مسئلےکی صورت میں، میں خود عام طور پر کوئلے کے میدان کے علاقے کا دورہ کرتا ہوں۔ دھول کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کی جگہ پر پانی کے چھڑکاؤ کے نظام کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کی قانونی دستاویزات کی خلاف ورزی کی صورت میں کان کے مالکان کو فراہم کردہ این او سی [نو اوبجیکشن سرٹیفکیٹ، ایک پراجیکٹ کو مجاز ثابت کرنے کے لیے قانونی دستاویز] منسوخ کیا جا سکتا ہے۔“

کراچی میں بین الاقوامی یونین برائے تحفظِ فطرت کے پروگرام کے سربراہ دانش راشدی کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان پیرس موسمیاتی معاہدے کے دستخط کنندگان میں سے ایک ہے جس کا مقصد گلوبل وارمنگ کو محدود کرنا ہے۔ دستخط کنندہ ہونے کے باوجود کوئلے کی کان کنی پاکستان میں کچھ عرصے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ “پاکستان میں توانائی کے لیے ہماری بڑی ضروریات کے پیشِ نظر کوئلے کے پاور پلانٹس کا کافی رجحان ہے۔ وقتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کول پاور پلانٹس پر انحصار اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ نجی شعبہ ازالہ کاربن کے لیے اقدامات نہیں اٹھاتا۔ اور کوئلے کے اثرات کی تلافی کرنا شروع نہیں کرتا اور مستقبل میں صاف توانائی کی طرف نہیں جاتا۔ ”

(رفیع اللہ مندوخیل مصنف، بلوچستان میں مقیم صحافی ہیں جن کی یہ رپورٹ دی تھرڈ پول سے نقل کی گئی ہے، اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے، اس رپورٹ کے مترجم عشرت انصاری ہیں)

شاید آپ یہ بھی پسند کریں