پاکستان میں ڈیم کی تعمیر جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہاں ڈیم کے معاملے پر بہت حد تک سیاسی اور لسانی تقسیم ہوچکی ہے۔
آپ ڈیم کی بات کریں تو خیبر پختون خوا سے ایک مخصوص لابی اٹھ کر کہتی ہے کہ اگر ڈیم بنا تو یہاں کے متعدد علاقے زیرِ آب آجائیں گے۔ دوسری طرف سندھ میں ایک لابی یہ کہنا شروع ہوجاتی ہے کہ اگر ڈیم بنے گا تو انڈس ڈیلٹا تباہ ہوجائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیم مخالف لابی کو بھاری فنڈنگ ملتی ہے تب ہی وہ ہر منصوبے کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ تو میرا ان دونوں طبقہ فکر سے سوال ہے کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے میں متعدد علاقے سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی لسانی سیاست ہے جس کی وجہ سے اس وقت عوام تکلیف میں ہیں۔ مظلوم عوام رو رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں پانی ان کا سب بہا کر لے گیا ہے۔
بڑے چھوٹے ڈیم بہت کم تعداد میں موجود ہیں اگر پانی کے ذخیرے ہوتے تو عوام کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ پانی دریاؤں سے چھلک کر بستیوں میں گھس جاتا ہے اور عوام کا نقصان ہوتا ہے اور آخر میں یہ پانی ضائع ہو کر بحیرۂ عرب میں گر جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ندی نالوں کی زمین پر قبضہ کر کے وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنادی گئی ہیں۔ پانی کو راستہ نہیں ملتا اور وہ اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ پھر جب یہ پانی راستہ بناتا ہے تو بھیانک تباہی لاتا ہے اور اربن فلڈنگ بہت خطرناک ہے۔
اس وقت سیلاب کے باعث صورتحال گھمبیر ہے بلوچستان کے پی کے جنوبی پنجاب میں متعدد مقامات پر اونچے درجے کا سیلاب ہے لوگوں کے املاک تباہ ہوگئے ان کے پیارے سیلاب میں بہہ گئے ان کے گھر مویشی اثاثے سمندر برد ہوگئے۔ عوام کی آہ و بکا کا کوئی اثر حکمرانوں پر نہیں ہوا وہ سیاست سیاست کھیلتے رہے اور کھیل رہے ہیں۔ یہ ہر ایک دو سال بعد ہوتا ہے کہ پانی آتا ہے اور عوام کو تباہ کرجاتا ہے۔ عوام بدحال ہورہے ہیں اور دوسری طرف قیمتی پانی ضائع ہورہا ہے لیکن کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ سب سے پہلے تو ندی نالے صاف کیے جائیں اور ان پر سے تجاوزات ہٹائی جائیں۔ اس کے ساتھ ڈیمز کی تعمیرات پر توجہ دی جائے اگر ہم ہندوستان اور پاکستان کا تقابلی جائزہ لیں تو اس وقت وہاں پانچ ہزار سے زائد ڈیم موجود ہیں جبکہ پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیم اور ذخیرے ملا کر ڈیڑھ سو کے قریب ہیں۔
ہندوستان سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے دریاؤں کا پانی چوری کررہا ہے اور جب بارشیں ہوتی تو اضافی پانی اچانک سے پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان کے پاس چھوٹے بڑے ذخیروں کی تعداد ناکافی ہے تو مون سون کی بارشوں کے علاوہ یہ پانی بھی سیلاب بن کر عوام پر مسلط ہوجاتا ہے۔
اس وقت ایک بڑے ڈیم دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر جاری ہے اس لئے ہمیں اس کے بعد کالا باغ ڈیم بنانے کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ تاہم اس کے ساتھ ہمیں ملک میں پانی کے چھوٹے ذخیروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس پانی کو آب پاشی میں استعمال کیا جائے اور آبادی کی آبی ضروریات کو یہ پورا کرے۔
اگر ہم ہندوستان کی طرف دیکھیں تو وہ مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارت کے دریائے چناب پر منصوبوں بہلگہار، دولہستی، سلال، پاکل دول، کیرتھاری، برساسر، سوالکوٹ، رتلے، کروار، جیپسا ملا کر 17 پروجیکٹ ہیں۔ دریائے جہلم پر کشن گنگا قابل ذکر ہے۔دریائے سندھ سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے ہیڈرو پاور چھوٹے اور بڑے 155 کے قریب منصوبے ہیں۔
بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہے سیلاب کی صورت میں چھوڑ سکتا ہے۔ یہ اس وقت بھی ہو رہا ہے دریائے چناب میں اس وقت اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
ہمیں بھی اپنی عوام اور کسانوں کے لئے فوری طور پر اقدامات کرنے ہونگے اور اس قیمتی پانی کو بحیرہ عرب میں گرنے سے بچانا ہوگا۔ ہم خشک سالی کا بھی شکار ہوتے بجلی کی کمی کا بھی سامنا کررہے اور اس وقت سیلاب میں بھی ڈوبے ہوئے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں واٹر مینجمٹ ٹھیک نہیں ہے۔ چناب پر بگلیہار ڈیم رتلے اور جہلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر ایک آبی جارحیت ہے جوکہ پاکستان کے خلاف ہندوستان کی طرف سے کی گئی۔ ہندوستان ٹنل بناکر پانی کا رخ اپنے پنجاب کی طرف موڑ رہا اور جب مون سون ہوتی تو پانی کے ریلے پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے۔
ہمارے ملک میں ڈیم سیاست کا شکار ہیں اس لئے ہمارے عوام نقصان اٹھا رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا ہندوستان کو ملے جن میں بیاس راوی اور ستلج شامل ہیں۔ پاکستان کے پاکستان کو چناب جہلم سندھ ملے ہندوستان نے مغربی پانیوں پر بھی قبضہ کرلیا اور ہمارے ملک میں ہم آج تک کالا باغ ڈیم پر اتفاق نہیں کرسکے۔ جون میں ارسا کی رپورٹ کے مطابق دریاوں میں پانی 56 فیصد کم تھا اور تربیلا منگلا کے ذخیرے خالی تھے اور اس وقت ملک میں سیلاب کی صورتحال ہے۔
ملک میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے، حکومتوں کو 5 سال پورے نہیں کرنے دیے جاتے، وزراعظم گھر بھیج دیے جاتے ہیں، خارجہ پالیسی ناکام ہے اور ہندوستان ہمیں مسلسل آبی مسائل میں گھیر رہا ہے لیکن کسی کی توجہ ہی نہیں۔ امریکہ کی واٹرکیری اوور کپیسٹی 900 دن ہے آسڑیلیا کی 600 دن ہے بھارت کی 170 اور پاکستان کی صرف تیس دن اور منگلا تربیلا بلترتیب اپنی بیس سے 35 فیصد ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکا ہے۔ اس لئے جب معاشی حالات بہتر ہوں تو کالا باغ کے ساتھ چھوٹے ذخیروں پر کام شروع کیا جائے۔
پاکستان اس وقت صرف دس فیصد پانی اسٹور کرتا ہے ہمارا فریش واٹر کا جو ٹوٹل سالانہ فلو ہے 145 ملین ایکڑ فٹ ہے اور ہم صرف 13 ملین ایکڑ ذخیرہ کرتے ہیں۔ یہ شرح بہت کم ہے اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم پانی کا ذخیرہ کریں اور اس سے سستی بجلی پیدا ہو جوکہ ہماری معشیت کے لئے بہت ضروری ہے۔