نیرہ نور سے پہلا تعارف جب ہوا جب میں سکول میں تھی۔ ہماری ٹیچر نے ہمیں ایک کیسیٹ دی جس میں نئیرہ نور کی خوبصورت آواز میں نغمے ریکارڈ تھے۔ ان دنوں انٹر سکول مقابلے چل رہے تھے اور ہمیں ملی نغمے کی تیاری کرنی تھی وطن کی مٹی گواہ رہنا ہم سب بچوں نے تیار کیا اور ہمیں پہلا انعام ملا۔مجھے گلوکاری کا شوق تھا تو میں نے نئیرہ نور کے کچھ اور گانے اور نغمے بھی یاد کرلئے۔
جب ہم چھوٹے تھےتو ایسے گانے صرف پی ٹی وی یا ریڈیو پاکستان کے ایف ایم 101 پر آتے تھے۔ ڈش پر بھارتی چینلز کا غلبہ تھا۔ اب ان کے گانے حاصل کرنا بھی ایک چیلنج تھا کیونکہ اس وقت نئیرہ نور گانا چھوڑ چکی تھیں اور بہت کم نظر آتی تھیں۔ میں نے جناح سپر میں موجود اس وقت کی واحد میوزک شاپ کو کہا کیسیٹ کی ایک سائیڈ پرنیرہ نور کے ملی نغمے ریکارڈ کردیں اور دوسری طرف انکی غزلیں ریکارڈ کردیں۔ ہمیں پریکٹس کے لئے نغمے سننا ہوتے تھے ہم انکی دھن الفاظ کو ساتھ ساتھ گاکر یاد کرتے پھر مقابلے میں جاتے۔
جب نیرہ نور کی کیسیٹ مجھے ملی تو اچھے خاصے پیسے خرچ ہوئے اور بہت سے دیگر موسیقی کے شوقین نے اسکو اپنی کیسیٹ میں کاپی کرلیا۔اس وقت ٹیپ میں یہ اسسٹم ہوتا تھا کہ ایک حصے میں کیسیٹ چلتی تھی اور دوسرے حصے میں خالی کیسیٹ میں سب ریکارڈ ہوجاتا تھا۔
میں نے سکول میں انکے بہت سے نغمے گائے اور انعام جیتے۔ میری آواز بھی اوسط ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے نئیرہ نور کو گانا آسان تھا۔اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،وطن کی مٹی گواہ رہنا، اے جذبہ دل گر میں چاہوں، ہمارا دیس ہے پاکستان بہت بار گایا۔ جب بھی میجر عزیز بھٹی شہید پر بنا ڈرامہ دیکھا اور یہ نغمہ اے جذبہ دل گر میں چاہوں آیا تو میں ضرور روئی ہوں۔ آنکھیں پرسوز اواز سے نم ہوجاتی۔اس کی شاعری اور نئیرہ نور کی آواز نے اس نغمے کو لازوال بنادیا۔
جب ہماری ویلکم یا فئیرول ہوتی تو پھر میں انکی گائی ہوئی روٹھے ہو تم ، کہاں ہو تم،رات دل میں تیری یاد آئی، ہمیں ماتھےپر بوسہ دوگا دیتی۔ اس سے پہلے ہمارے اساتذہ ہمیں خوب پریکٹس کراتے مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرے لئے نئیرہ نور کے گانوں کو گانا سب سے آسان تھا۔ ان کی آواز بہت مدھر اور شیریں تھیں۔ میری آواز ان جتنی تو بلکل اچھی نہیں تھی بس ہم سب طالب علم اور کے نغموں کو گا کر انعام جیت لاتے۔ میں نے انکے بہت سے انٹرویو دیکھے اور پڑھے وہ میری بہت پسندیدہ تھیں اور ہمیشہ رہیں گی۔
ان کے علاوہ اپنے بچپن میں شاید ہی میں نے کسی گلوکار کو اتنا سنا ہو نئیرہ نور ، استاد نصرت فتح علی خان اور شازیہ منظور یہ مجھے بہت پسند رہے۔ میری صرف ایک بار پی ٹی وی میں بلبل پاکستان نئیرہ نور سے ملاقات ہوئی اور ان سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہ بہت ہی سادہ مزاج خوش اخلاق اور دنیاوی چیزوں سے پرے خاتون تھیں۔ ان کے شوہر شہریار زیدی نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور وہ پاکستان کے مقبول ترین اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
نیرہ نور 1950 میں آسام ہندوستان میں پیدا ہوئیں اور بعد ازاں انکا خاندان پاکستان منتقل ہوگیا۔انکا خاندان تحریک پاکستان کا اولین دستہ تھا۔ نیرہ نور نے کوئی موسیقی کی باقاعدہ تعلیم نہیں حاصل کی تھی بس کالج میں انکے اساتذہ نےانکے اس فن کو جانچ لیا۔اسکے بعد انکی گائیکی کا سلسلہ ریڈیو پاکستان سے شروع ہوا پھر یہ پی ٹی وی آئیں اور پورے پاکستان میں انکے نام کا ڈنکہ بجنے لگا۔ نئیرہ نور نے فلمز ڈراموں کے لئے گانے اور غزلیں گائیں۔ اسکے ساتھ ایسے ملی نغمے پاکستان کو دئے جو آج تک سب کے لبوں پر ہیں۔ انکو زندگی میں متعدد ایوارڈ ملے جن میں نگار ایوارڈ سمیت پرائیڈ آف پرفارمنس شامل تھا۔
وہ شہریار زیدی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی انکے دو بیٹے ہیں جن میں جعفر زیدی معروف vocalist ہیں اور انکے دوسرے بیٹے ناد علی بھی گلوکاری کی طرف آرہے ہیں۔ ان کے شوہر کی اداکاری کو پاکستان بھر میں سراہا گیا ان کے اہم ڈراموں میں ڈولی کی آئے گی بارات،چیخ،پیارے افضل، میری ذات ذرہ بےنشان،میرا یقین، ملال،چاندنی راتیں اور دیگر شامل ہے۔
نیرہ نورکچھ عرصہ قبل شوبز سے کنارہ کشی اختیار کر چکی تھیں اور اپنی گھریلو زندگی میں مصروف تھیں۔ پی ٹی وی کے عزلوں کے پروگرام کے بعد شاید ہی انہوں نے گائیکی کی ہو۔ ان کے مداح اس وقت افسردہ ہوگئے جب 20 اگست کو انکے انتقال کہ خبر سامنے آئی۔ وہ مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئ انکی عمر 72 سال تھی۔ تمام ہی لوگ انکے ایصال ثواب کے لئے دعا کرنے لگ گئے ۔ کچھ لوگوں نے انکے گیت اور ملی نغمے لگا کر انکو خراج تحسین پیش گیا۔ ایک بلبل جگنوں کے دیس نکل گئ اللہ آگے کی منزلیں آسان فرمائے آمین۔ انکو 21 اگست کو سپرد خاک کردیا گیا۔ یہ سنہری عہد ختم ہوا ہم سب کے لئے وہ ایک رول ماڈل تھیں ہم سب انکے گائے ہوئے نغمے گاکر بڑے ہوئے اور انکئ یہ نغمے آگے بھی نئ نسل میں جذبہ حب الوطنی پیدا کرتے رہیں گے۔