75 واں جشنِ آزادی منانے کے لیے پاکستانی قوم جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ گھروں، سڑکوں، گلیوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آگئی ہے اور یہ اہتمام کیوں نہ ہو کہ آزادی کا جشن منانا کسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔
آزادی کسی قوم کا وہ سرمایۂ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تاب ناک مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، جب کہ غلامی ایک مرض اور غیروں پر بھروسا کرنا وہ عادت ہے جو دلوں کو جوش و جذبے سے محروم اور جذبہ و امنگ سے یکسر خالی کردیتی ہے۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اسی غلامی کو آزادی میں بدلنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا تھا:
دلِ مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
14 اگست 1947 اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کا نام ابھرا۔ آزادی کی یہ نعمت ہمیں قائداعظم کی قیادت اور ان کے رفقا کی شبانہ روز جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے طفیل نصیب ہوئی تھی۔ دو قومی نظریے اور ایک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا وطن جب معرضِ وجود میں آیا تو اس کے پاس مسائل زیادہ اور وسائل انتہائی کم تھے۔ لیکن مخلص قیادت نے اس وقت کے ایک ناتواں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا اور چند سال میں اسے دنیا کے ایک ایسے ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا جہاں تیزی سے صنعتی ترقی ہورہی تھی۔
دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، اسٹیل مل، معروف فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان کا شہر کراچی بھی کبھی دنیا میں اپنی مصروف بندرگاہ کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستانی قیادت اگر امریکا جاتی تو وہاں کے حکم راں اور اعلیٰ عہدے دار خود ان کا استقبال کرتے تھے۔ یہ بات شاید کئی قارئین کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہو کہ پاکستان جرمنی سمیت متعدد ملکوں کو قرضے دیتا تھا، لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پاکستان نے ابتدائی دو عشروں میں جو ترقی کی تھی وہ اس طرح ترقیٔ معکوس ثابت ہوئی کہ قرض دینے والا یہ ملک آج خود قرضوں کے جال میں جکڑ چکا ہے اور ہمارے حکم راں کاسۂ گدائی پھیلائے ہوئے ہیں۔ ہم سے کئی برس بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک آج صنعت و حرفت میں ہم سے آگے ہیں اور اپنی معیشت کا عروج دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا میں مشہور ہونے والی اسٹیل مل معیار اور صنعت گری کے اعتبار سے ختم ہوچکی ہے۔ پی آئی اے تباہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ سب سے بڑے نہری نظام اور دنیا کے سب سے بڑے ڈیم والا ملک پانی کی قلت کے مسئلے کا سامنا کررہا ہے اور زرعی زمینیں بھی پانی سے محروم ہیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کو پہلے دہشت گردی کے عفریت نے تاریکیوں میں دھکیلا اور اب حکم رانوں کی ریشہ دوانیوں اور غفلت نے عروسُ البلاد کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند سال کے بعد جو بھی حکم راں رہے ہیں ان میں سے چند کو چھوڑ کر یا تو سب کوتاہ نظر رہے یا پھر ان کی ترجیح ملک سے زیادہ ذاتی مفاد رہا ہے۔ ہمارے اکثر حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلیے کبھی مذہب تو کبھی لسانیت اور صوبائیت کا سہارا لیا۔ ہماری خارجہ پالیسی یہ رہی کہ جس کسی کے پاس اقتدار رہا وہ سات سمندر پار امریکا سے دوستی میں تو ہر حد تک گیا لیکن ہمسایہ ممالک (ماسوائے چین) کے ساتھ تعلقات کو کوئی اہمیت نہ دی۔
حکومتوں نے ملکی وسائل اور افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے زراعت و صنعت کو فروغ دینے کے بجائے بیرونی قرضوں کا طوق اس قوم کے گلے میں ڈالا۔ قومی صنعت کو فروغ دینے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا اور ہر موقع پر بااختیار و برسر اقتدار طبقے نے اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھا دیا۔ جاگیردار طبقے نے جان بوجھ کر تعلیم کو نظر انداز کیا تاکہ عام آدمی باشعور ہو کر ان کے اقتدار کیلیے خطرہ نہ بن سکے۔ یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی آبیاری کرنے کے بجائے تعلیم کو کمرشلائز کر کے طبقاتی تقسیم کو عروج دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو وراثت میں ڈھال کر جمہوریت کے نام پر خاندانی ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی اور اسی سیاست کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔
ایک کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر بار بار خون میں نہلایا گیا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی صرف دو مواقع پر ایک قوم نظر آتے ہیں، ایک 14 اگست اور دوسرا کرکٹ میچ۔ وہ بھی بالخصوص بھارت سے مقابلے میں ورنہ اس کے علاوہ کہیں سندھی ہے تو کوئی پنجابی، کہیں پختون ہے، کوئی بلوچی، مہاجر اور کوئی سرائیکی ہے، اگر نہیں ہے تو پاکستانی نہیں ہے۔
75 برس کے اس سفر میں ہم اپنا ایک بازو گنوا چکے جو اب دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے جب کہ باقی ماندہ پاکستان ہماری اپنی کوتاہیوں، ریشہ دوانیوں، رنجشوں، لسانی نفرت اور مذہبی بنیاد پر تفریق سے نڈھال اور ناتواں ہو چکا ہے جس کی ذمے داری یوں تو من حیث القوم سب پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک پر حکومت اور قوم کی قیادت کی لیکن ہمیں ایک ایسا پاکستان نہیں دے سکے جو دنیا میں ایک باوقار، حقیقی معنوں میں خود مختار اور معاشی طور پر مستحکم ہوتا۔
یوں تو ہم کہنے کو آزاد قوم ہیں لیکن نہ ہماری معیشت آزاد ہے اور نہ ہی ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل۔ اب ہماری معاشی پالیسی ہمارے قرض خواہ ادارے ہمیں بنا کر دیتے ہیں جن پر من و عن عمل کرنا حکمران وقت کی مجبوری ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی صنعت و حرفت، تعلیم و صحت، فن و ثقافت کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کی کارکردگی کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
پچھتر سال کا وطن عزیز سوال کررہا ہے کہ جس مقصد کیلیے کرہ ارض پر یہ زمین کا ٹکڑا پاکستان کے نام سے حاصل کیا گیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوگیا۔ اس بار قوم یہ جشن آزادی عدم اعتماد کی فضا میں پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کے نعروں کی بازگشت میں منا رہی ہے۔ ملی نغموں کی گونج اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار تو ہر طرف ہے، لیکن کیا صرف سال میں ایک ہی دن جھنڈے لہرانے، جھنڈیاں لگانے، قومی اور ملی نغمے گانے، ریلیاں نکالنے اور حب الوطنی پر مبنی تقاریر کرنا ہی ایک زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے؟
وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ رک کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوگا اور قیام پاکستان سے اب تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ 75 سال کے آزادی کے اس سفر میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں باوقار انداز سے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اپنے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی قرضوں سے کس طرح نجات ممکن ہے؟ کس طرح چھوٹی چھوٹی اکائیوں کی تقسیم کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر قوم بناسکتے ہیں؟
آج ملک کے مقتدر اور بااختیار افراد سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بحیثیت قوم سب کو سوچنا ہوگا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ ارضی حاصل کیا تھا۔
صرف آزادی کا جشن منا لینے سے وطن کی محبّت کا حق ادا نہیں ہوتا، ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ یہ مُلک جتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد نصیب ہوا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور اس سے محبّت کریں۔ قوم، بالخصوص نوجوان نسل میں جبّ الوطنی کو فروغ دینے کے لیے حکومت وقت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور جس کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر انہیں درست سمت اور سازگار ماحول دیا جائے تو وہ اسے مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ قومیتوں، فرقوں کی تقسیم سے نکال کر ایک قوم کی لڑی میں پرویا جائے تو یہ قوت بن کر اغیار کے سامنے سرنگوں مملکت کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتے ہیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پر حقیقی معنوں میں سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایک خودمختار ملک کے طور پر جگمگا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف اور صرف اخلاص کے ساتھ جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے ایک دعائیہ کلام کے ساتھ اپنے اس بلاگ کا اختتام کرتا ہوں:
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو