سیلاب جو سوات کا حُسن اور ہزاروں گھروں کو نگل گیا
جنت نظیر وادی کو چار بار اجڑتا دیکھنے والے کی زبانی تازہ صورتِ حال جانیے
محبت کرنے والوں کی وادی میں لوگ بلا تفریقِ رنگ و نسل، زبان اور مذہب دیکھے بغیر اپنی روایت کے مطابق سب کی خدمت کرتے ہیں۔ بحرین سے کالام جاتے وقت اگر کبھی کسی سیاح کی گاڑی خراب ہوجاتی تو اندھیرے سے پہلے مقامی لوگ اُس سے رابطہ کر کے اپنے مہمان خانے لے جاتے اور بغیر کسی لالچ کے خوب میزبانی کرتے ۔ مگر آج اسی وادی کے لوگ بے بسی اور مجبوری کے عالم میں امداد کے منتظر ہیں۔ اب یہ وادی ایسی مہربانی اور مہمان نوازی دوبارہ کب دیکھے گی کچھ معلوم نہیں۔ سیلابی ریلے کے ساتھ آتے دیو ہیکل پتھروں نے ہر چیز کو تہس نہس کردیا ہے۔
ملک بھر میں بارشوں کے بعد جہاں بڑے پیمانے پر تباہی اور جانی و مالی نقصان ہوا، وہیں خیبرپختونخوا کا مالاکنڈ ڈویژن بھی بارشوں اور سیلاب سے شدید متاثر ہوا ہے۔ کمشنر مالا کنڈ شوکت علی یوسفزئی کے مطابق مالا کنڈ ڈویژن میں حالیہ سیلاب 45 جانوں کے ضیاع کا سبب بنا ہے اور 50 سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
جنت نظیر وادی سوات مکمل طور پر اجڑ گئی ہے۔ چند روز پہلے تک جہاں جانے کے لیے لوگ بے تاب رہتے تھے اب اُن پُرفضا مقامات پر ویرانی کا راج ہے اور اس تباہی اور نقصانات کے ازالے میں چند سال لگ بھی سکتے ہیں۔ وادی سوات کے علاقے کالام میں جہاں کئی ہوٹل دریا برد ہوئے، وہیں تاریخی مساجد اور مکانات بھی تباہ ہوگئے جب کہ کالام سے اوپر کئی گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ بازار جہاں عوام کا رش ہوتا تھا وہاں پر اب سیلابی پانی کا بہاؤ ہے اور لوگ خوفزدہ ہیں۔
کالام کے پرانے بازار میں موجود ایشیا کی تاریخی خاریچی مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ پیش امام مولوی حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ کالام آنے والے یہ تاریخی جامع مسجد دیکھے بغیر نہیں جاتے تھے۔ انھوں نے اپیل کی کہ مسجد کی مرمت اور مکمل بحالی میں مخیر حضرات اپنا کردار ادا کریں۔ یہاں موجود سماجی ورکر عزیز کالامی بھی حسرت بھری نگاہوں سے پرانے بازار کو دیکھتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا اس وادی اور بازار کی رونق اور گہماگہمی بحال ہوسکے گی۔ یہاں 120 دکانیں، درجن بھر گھر اور چار ہوٹل بھی تھے جنھیں دریا نگل گیا اور یہی نہیں بلکہ پانچ سو خاندانوں کا روزگار بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ عزیز کالامی نے کالام میں سرمائی سیاحت کے فروغ کے لیے یہاں پہلی بار اسنو کبڈی فیسٹول منعقد کروانے کے ساتھ مختلف ایسے کام کیے جن سے سرمائی سیاحت کو فروغ ملا۔ جنت نظیر وادی میں قدرتی آفت پہلی بار نہیں آئی بلکہ گزشتہ ایک دہائی میں چار مواقع ایسے آئے جب سوات تباہ ہوا اور پھر اسے آباد کیا گیا۔ 2007 سے 2009 تک یہ وادی دہشت گردی سے متاثر رہی اور زندگی واپس نہیں لوٹی تھی کہ 2010 کے سیلاب نے یہاں کے عوام کی خوشیاں چھین لیں اور بحالی کا عمل کئی سال میں مکمل ہوا تھاکہ 2015 کے ہولناک زلزلے نے سوات کی خوب صورت وادی کو غم زدہ کردیا۔ کرونا اور ڈینگی سے ابھی سنبھلے ہی تھے اور توقع کی جارہی تھی کہ اس سال تقریباً بیس لاکھ سیاح جنت نظیر وادی کا رخ کریں گے، لیکن سوات ایک بار پھر سیلاب کی نذر ہوگیا۔ مرکزی شہر مینگورہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے، آدھے سوات کی بجلی بند ہے، لاکھوں عوام بے گھر ہوگئے ہیں۔
راقم نے 45 سال کی عمر میں سوات کو چار بار اجڑتے سنورتے دیکھا ہے۔ سوات کو 2007 میں دہشت گردی کے عفریت نے گھیر لیا تھا اور ہر طرف خوف اور ویرانی تھی۔ غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل وادیٔ سوات کی آبادی کے لیے مئی 2009 کی نقل مکانی کسی دوزخ کی یاد سے کم نہیں۔ کیوں کہ اس خوب صورت وادی کے نازک مزاج، نرم خُو اور ٹھنڈے موسم کے عادی لوگ ملک کے گرم علاقوں میں جون جولائی کے سخت موسم میں در در کی خاک چھانتے پھرے۔ 25 لاکھ عوام اپنے ہی ملک میں اجنبی بنے اور آئی ڈی پیز کہلائے۔ کڑا وقت گزرا اور سختیاں کم ہوئیں تو 2010 میں سیلاب آگیا اور ایک بار پھر سب کچھ اجڑ گیا۔ سیکڑوں رہائشی اور کاروباری عمارتیں اور گاؤں مکمل تباہ ہوگئے جب کہ درجنوں شہری ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد زلزلہ آیا جس میں جانی اور مالی نقصان ہوا اور اب وادی کو سیلاب کا سامنا ہے۔ حالیہ سیلاب سے بحرین کا علاقہ اریانے بھی بری طرح متاثر ہوا ہے جہاں پر تین سو میں سے ایک سو نوے گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے ہیں اور پورا علاقہ جزیرے میں تبدیل ہوگیا ہے۔
سوات کا خوب صورت علاقہ کالام سب سے زیادہ متاثر ہوا اور جس رات سیلاب آیا، اس رات بھی کالام میں پانچ ہزار سیاح موجود تھے۔ یہاں 130 کلو میٹر فاصلے تک روڈ اور پندرہ پل دریا برد ہوگئے جس سے کالام کا ملک بھر سے زمینی رابطہ ختم ہوگیا اور اس کے باعث سیاح کالام میں پھنس گئے۔ کہا جارہا ہے کہ لگ بھگ ایک ہزار سیاح اب بھی کالام میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سیلاب کے بعد راقم کالام گیا تو ہر طرف دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے۔ دو چھوٹی بچیاں پلوگاہ میں کھلے آسمان تلے دو گملے ہاتھ میں لیے ہوئے بیٹھی تھیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ ہم نے اپنے گھر میں لگائے تھے اور اچانک سیلاب آگیا لیکن ہم ان پودوں کو اپنے ساتھ اٹھا کر لے آئے ہیں، گھر تو نہ رہا لیکن یہ گملے ہمارے پُررونق آنگن کی نشانی کے طور پر بچ گئے ہیں۔
وزیر اعلی محمود خان نے سابق وفاقی وزیر مراد سعید کے ہمراہ دورۂ سوات میں کالام کا فضائی جائزہ لیا اور مٹہ اور مینگورہ کے متاثرہ علاقوں کیا۔ اس موقع پر پریس کلب میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ متاثرینِ سیلاب کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں جب کہ امدادی کاموں کے لیے فوری طور پر ایک ارب روپے جاری کردیے ہیں اور ڈھائی ارب روپے جلد جاری کیے جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ رابطہ سڑکوں اور پلوں کے بحالی اوّلین ترجیح ہو گی جب کہ اپنا ہیلی کاپٹر بھی یہاں محصور سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے دیا ہے۔ سیکرٹری اطلاعات و تعلقات عامّہ ارشد خان بھی وزیر اعلی محمود خان کی ہدایت پر سوات پہنچے اور انتظامیہ کو امداد اور بحالی کے کام تیز کرنے کی ہدایت کی۔ دوسری جانب وزیر اعلی کی ہدایت پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو تکلیف اور پریشانی سے بچاتے ہوئے راشن اور دیگر ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کے لیے ایگزیکٹو کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں سرکاری حکام اور مختلف اہم عہدے دار شامل ہیں۔ کمیٹی کے اراکین اعداد و شمار اور متاثرین کے کوائف اکھٹا کرنے کے ساتھ ساتھ گھر گھر خوراک، اودیہ اور دیگر ضروریاتِ زندگی پہنچانے کا انتظام کریں گے۔ اس طرح یہاں کے لوگ ان اشیا کے حصول کے لیے کسی مرکز پر قطاروں میں کھڑے رہنے کی اذیت اٹھانے کے بجائے باعزت طریقے سے گھر کی دہلیز پر امداد وصول کرسکیں گے۔
ان علاقوں میں میڈیکل ٹیمیں بھی متحرک ہوچکی ہیں جب کہ دیگر متاثرہ علاقوں میں بھی خوراک اور ادویات کی ترسیل کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی آسانی کے لیے سب ڈویژنل سطح پر اسٹور بنانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جب کہ سڑکوں کے بحالی کے لیے بھاری مشینری پہنچا دی گئی ہے جس کے بعد امید ہے کہ جلد ان علاقوں میں آمد و رفت کا سلسلہ بحال ہو جائے گا۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وبائی امراض پھیلنے سے پہلے متاثرہ علاقوں تک میڈیکل ٹیمیں پہنچ جائیں۔ وزیر اعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے ایگزیکٹو کمیٹی کی نگرانی کمشنر مالاکنڈ ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر سوات کو سونپی ہے جس کے بعد شوکت علی یوسفزئی اور جنید خان ریسکیو آپریشن اور دیگر تمام کاموں کی نگرانی خود کر رہے ہیں۔
بالائی علاقوں کی بات کی جائے تو کئی روز سے جاری ریسکیو آپریشن کے باوجود متاثرین کی مشکلات برقرار ہیں اور وہاں اشیائے خورد و نوش کی قلّت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں راشن اور خیرات دینے کے بجائے راستے بحال کیے جائیں۔ بالائی علاقوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی بھی قلّت پیدا ہوگئی ہے جب کہ ایک ہفتے سے بجلی کی فراہمی بھی منقطع ہے۔
حکومت کی جانب سے متاثرینِ سیلاب کی امداد اور یہاں بحالی کے کاموں کا آغاز تو ہو گیا ہے، لیکن کالام اور بالائی سوات پر توجہ دیتے ہوئے یہاں ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔