پریم چند جبر، استحصال اور غلامی کے خلاف اردو نثر میں توانا آواز ہیں۔ ان کی تخلیقات کی ایک طویل قطار ہے جس میں مغلیہ دور کے بعد اور تقسیم سے قبل کے ہندوستان کے ‘لینڈ اسکیپ’ ایک کے بعد ایک ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ لیکن میں نے جس کتاب کو اپنا موضوع بنایا ہے وہ ان کی تخلیق ہے، نہ وہ اس کے مصنف اور مؤلف، مگر اپنی تخلیقات کے برعکس اس کتاب کے ہر صفحے پر خود پریم چند موجود ہیں، وہ بھی اس حقیقت سے بے خبر کہ کوئی انھیں پڑھ رہا ہے۔
دراصل یہ کتاب پریم چند کے خطوط کا مجموعہ ہے، جسے مدن گوپال نے بڑی کاوشوں سے مرتب کیا ہے۔ ان خطوط کے حصول کے لیے انھیں لاہور، بنارس، لکھنؤ، کان پور، گورکھ پور، الہ آباد، دہلی، مدراس اور بمبئی کا بار بار سفر کرنا پڑا۔ یہاں لوگوں کے عجیب رویے بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مؤلف کے مطابق پریم چند کے ساتھ ادبی معاون کے طور پر کام کرنے والے دلارے لال بھارگو نے خط یا ان کی نقل دینے سے صاف انکار کر دیا۔ ایک اور صاحب ”ونودشنکر ویاس نے بھی خطوط کی نقلیں نہ دیں، جنھیں بعد میں انھوں نے اخباروں میں شایع کر دیا۔“ شری کے ایم منشی نے خط دینا تو دور کی بات انھیں دکھایا بھی نہیں۔ مؤلف کے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ ان مراسلوں میں ہندی، اردو اور ہندوستانی سے متعلق تلخ بحثیں ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس عظیم مصنّف کے بیٹوں نے بھی اس کے خط محفوظ نہ رکھے۔
پیش لفظ میں خطوط کے زیاں سے متعلق ایک افسوس ناک واقعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے:
”کچھ خط شو پوجن سہائے کے پاس پٹنہ میں تھے۔ بدقسمتی سے مکان میں چور گُھس آئے۔ لوہے کے جس بکس میں وہ خط تھے اُسے لے گئے۔ جب کھولا تو نکلے کاغذ۔ چوروں نے کاغذات کو کنوئیں میں پھینک دیا اور لوہے کے بکس پر صبر کیا۔ اگلے دن یہ خط کنوئیں میں تیر رہے تھے۔“
مؤلف کو خطوط کے حصول کے بعد انھیں ترتیب دینے میں کہیں زیادہ دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کا سبب ان کی خستہ حالت، بعض عجلت میں لکھے گئے ناموں کے پڑھنے میں دشواری اور تاریخوں کا نہ ہونا جیسے مسائل تھے۔ مدن گوپال نے ان تمام مشکلات سے گزر کر اردو کے اس حقیقت پسند نثر نگار کے دو سو ساٹھ خطوں کا مجموعہ مرتب کر ہی ڈالا، جو اردو اور پریم چند کے ہر پرستار پر ان کا احسان ہے۔
ان خطوط میں ہمیں پریم چند کی ذاتی زندگی کی بہت سے جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، اپنے دور کے اس مقبول لکھاری کے روز و شب کی تلخیوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے اور ان کے خیالات اور افکار سے شناسائی ہوتی ہے۔
مجموعے میں شامل پہلے خط ہی میں ان کے گھر کی کھڑکی چوپٹ کھلتی ہے اور ہمیں براہِ راست ان کی گھریلو الجھنوں کی خبر ملتی ہے۔ دیانرائن نگم کو وہ لکھتے ہیں:
”برادرم! اپنی بیتی کس سے کہوں۔ ضبط کیے کوفت ہورہی ہے، جوں توں کرکے ایک عشرہ کاٹا تھا کہ خانگی ترددات کا تانتا بندھا۔ عورتوں نے ایک دوسرے کو جلی کٹی سنائی۔ ہماری مخدومہ نے جل بُھن کر گلے میں پھانسی لگائی۔ ماں نے آدھی رات کو بھانپا، دوڑیں، اس کو رِہا کیا۔ صبح ہوئی، میں نے خبر پائی۔ جِھلّایا، بگڑا، لعنت ملامت کی۔ بیوی صاحبہ نے اب ضد پکڑی کہ یہاں نہ رہوں گی، میکے جاﺅں گی۔ میرے پاس روپیہ نہ تھا۔ ناچار کھیت کا منافع وصول کیا۔ ان کی رخصتی کی تیاری کی۔ وہ رو دھو کر چلی گئیں۔ میں نے پہنچانا پسند نہ کیا۔ آج ان کو گئے آٹھ روز ہوگئے۔ نہ خط ہے نہ پتر۔ میں اُن سے پہلے ہی خوش نہ تھا، اب تو صورت سے بے زار ہوں۔ غالباً اب کی جدائی دائمی ثابت ہو۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔“
پریم چند کی دعا قبول ہوئی۔ ان کی بیگم گئیں تو پھر لوٹ کر نہ آئیں، نہ انھوں نے لانے کی کوشش کی۔ برسوں ان کا خرچا بھیجتے رہے۔ پھر یہ تعلق انجام کو پہنچا اور پریم چند نے ہندو دھرم کی ”ودوا“ کا بیاہ نہ ہونے کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ایک ایسی لڑکی سے شادی کی جو گیارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھی۔
اگست 1912 میں لکھے گئے ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ پریم چند اس وقت ہندوستانی قوم پرستی تج کر ہندوتوا کے راستے پر چل پڑے تھے۔ جب ہندوستان میں متحدہ قومیت کا شوروغوغا تھا اور اس خط سے آٹھ سال پہلے ہی علامہ اقبال نے نظم ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ لکھی تھی۔ پریم چند، نرائن نگم سے مخاطب ہیں، جو ایک اخبار نکالنے کا ارادہ باندھ رہے ہیں۔
پریم چند اس اخبار کا نام ”ہندو“ تجویز کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
”اخبار کا نمونہ کامریڈ ہی ہو، پالیسی ہندو، اب میرا ہندوستانی قوم پر اعتقاد نہیں رہا۔ اور اس کی کشش فضول ہے۔“
پریم چند ایسے دور میں ذہنوں کو حریت کی سوچ سے منور کرنے کے لیے کوشاں تھے جب برصغیر پر انگریز کا تسلط تھا اور وہ خود سرکاری ملازم اور محکمۂ تعلیم سے وابستہ تھے۔ ان دنوں ان کے افسانوں کا مجموعہ ”سوزِ وطن“ شایع ہوا، جس کے بعد سی آئی ڈی ان کے پیچھے پڑی گئی۔ انھیں انگریز کلکٹر نے طلب کرلیا۔ اس مجموعے کی جتنی کاپیاں پریم چند کے پاس تھیں وہ سرکار نے ضبط کرلیں اور انھیں پابند کر دیا گیا کہ آئندہ وہ کلکٹر صاحب بہادر کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں لکھ سکتے۔
اب جس ذہنی کوفت سے گزرنا پڑا اسے یوں بیان کرتے ہیں:
”میرے لیے کلکٹر کو ہر ایک مضمون دکھانے کی ایسی بُری پخ لگی ہے کہ ایک مضمون مہینوں میں لوٹ کر آتا ہے اور چھٹویں مہینے چھپتا ہے۔“
ہمیں ان خطوط سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں جب ہندی کو پروان چڑھا کر اردو کے مقابل لایا جارہا تھا، ہندی کے فروغ کے لیے کیا کیا جتن ہورہے تھے۔ وہ ایک ناول کی اشاعت کے حوالے سے امتیازعلی تاج کو لکھتے ہیں:
”ہندی والوں نے مجھے چار سو روپے دیے ہیں، اردو سے مجھے اتنی امید نہیں مگر اکیس سطری صفحے کے بارہ حساب سے بھی قبول کرلینے میں بھی مجھے تأمل نہ ہوگا۔“
جب ایک قلم کار کو ہندی میں لکھنے کا وہ معاوضہ مل رہا ہوگا جس کے اردو میں تخلیق یا تحریر پر ملنے کی امید بھی نہیں، تو کیسے کیسے ادیبوں اور شاعروں نے اردو سے ہندی کی طرف منہ موڑ لیا ہوگا!
ہمارے بہت سے دانش ور آج کا غصہ ماضی پر اتارتے ہوئے گذشتہ صدیوں کے مسلمانوں کو علم سے بیزاری اور کتاب کی بے قدری کے طعنے دے کر بُری طرح ”ڈانٹتے“ ہیں، لیکن پریم چند کی اپنے دور کے مسلمانوں کے بارے میں رائے بڑی مختلف ہے۔
امتیازعلی تاج کو بھیجے گئے ایک نامے میں کہتے ہیں:
”اردو میں رسالے اور اخبارات بہت نکلتے ہیں۔ شاید ضرورت سے زیادہ۔ اس لیے کہ مسلمان ایک لٹریری قوم ہے اور ہر تعلیم یافتہ شخص اپنے تئیں مصنف ہونے کے قابل سمجھتا ہے۔“
اس دور میں اردو، ہندو مسلمان سب کی مشترکہ زبان تھی، جس پر بعد میں مذہب کا ٹھپا لگا کر تعصب کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اس زمانے کے عام ہندوﺅں اور ہندو زعما کی طرح پریم چند بھی عموماً خط و کتابت کے لیے اردو ہی کو وسیلہ بناتے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ وہ اقرباء کو بھی اسی زبان میں اپنی بات پہنچاتے تھے۔ چناں چہ اپنے سوتیلے بھائی مہتاب رائے، اپنے دوست دیا نرائن نگم اور دیگر ہندو احباب کو خالص اردو میں خط لکھے جو ”برادرِ عزیزِ من سلمہ“ جیسے القاب سے شروع ہوکر ”دعا گو“ اور ”والسلام“ پر ختم ہوتے ہیں۔
وہ اردو کی دل کشی اور اس کی ہندی پر برتری کے بھی دل سے قائل تھے۔کیشو رام سبھروال سے کہتے ہیں:
”اردو زبان چوں کہ زیادہ لوچ دار اور نکھری ہوئی ہے۔ اس لیے مختصر افسانوں کے لیے میں نے اردو ہی استعمال کی ہے۔ آپ ان افسانوں کا اردو میں زیادہ لطف اٹھاسکتے ہیں۔“
ہم اپنے ہاں کتاب سے عدم دل چسپی پر نوحہ کناں ہیں، اور اس صورتِ حال کا ذمے دار اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو قرار دیتے ہیں، لیکن دیکھیے جس دور میں یہ سب نہیں تھا اس وقت کا مقبول ترین ادیب بھی یہی رونا رو رہا ہے:
”میری کسی تصنیف کا شاید ہی تیسرا ایڈیشن چھپا ہو، کچھ کتابوں کے تو پہلے ایڈیشن ہی ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے کسان غریب اور اَن پڑھ ہیں۔ پڑھا لکھا اور روشن خیال طبقہ یورپی ادب پر جان دیتا ہے۔ گھٹیا کتابیں، ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ لیکن میری کتابوں کا حال یہ ہے کہ اُن کی تعریف تو کی جاتی ہے، لیکن ان کے لیے خریدار مشکل ہی سے ملتا ہے۔ “
پریم کا ادبی نظریہ حقیقت پسندی تھا۔ انھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں پر ہی اپنے ناولوں اور افسانوں کی بنیاد رکھی۔ وہ بہ طور قاری و ناقد بھی تخلیقات کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھتے تھے.
قاصدوں کے پاﺅں توڑے بدگمانی نے مِری
خط دیا لیکن نہ بتلایا نشانِ کوئے دوست
آتش کے اس شعر پر ان کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے:
”کیوں نہیں بتلایا؟ تھی آپ کی حماقت یا نہیں؟ آپ کو خوف ہوا کہیں معشوق قاصد کا دَم نہ بھرنے لگے۔ واہ رے معشوق اور واہ رے عاشق دونوں زندہ درگور۔“
ایک خط میں وہ اپنا فلسفۂ ادب بڑے اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
”میں جو چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کہانیوں کے پلاٹ جیون سے لیے جائیں اور جیون کی سَمسّیاﺅں کو حل کریں۔ کہانی سے کویتا کا کام مجھے نہیں جچتا۔“
ان خطوط کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اپنی رحلت سے کوئی دو سال قبل وہ اپنے دیرینہ مذہبی عقیدے سے دست بردار ہوکر ایک ایسی ماورائی ہستی کے قائل ہوتے نظر آتے ہیں جس کا انسان سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لکھتے ہیں:
”اس سے پہلے میں ایک خدائے برتر کی ہستی پر یقین رکھتا تھا، یہ اعتقاد غوروفکر کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ محض روایتی تھا۔ اب یہ اعتقاد چکنا چور ہورہا ہے۔ بے شک اس تمام عالم کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے، مگر میرے خیال میں انسانی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ اسے مکھیوں، مچھروں اور چیونٹیوں کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم نے خود کو جو اہمیت دی ہے اس کی کوئی وجہ، جواز نہیں۔“
آخری وقت میں پریم چند کا رجحان پوری طرح ہندی کا طرف ہوچکا تھا، اور لگتا ہے وہ اسے ہی اپنی زبان سمجھنے لگے تھے۔ ایک خط میں ہندی اخبارات کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اردو صحافت کی ستائش یوں کرتے ہیں:
”اردو کے اخبار بازی لیے جارہے ہیں۔ پچاس سے بھی زیادہ بلند پایہ اردو ماہ نامے نکلتے ہیں۔ اور اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو دو روپیہ یا ڈھائی روپے سے قیمت کا پانچ سو صفحوں کا سال نامہ نہ نکالتا ہو۔ یقیناً ان کا ادبی ذوق بہتر ہے۔“
پھر ہندی اور اردو شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ہندی شاعری ابھی تک انفرادی اور جذباتی ہے۔ ہماری شاعری اس جدوجہد کی آئینہ دار ہے جو ہمیں زندگی میں درپیش ہے نہ اس میں کوئی تڑپ ہے نہ ہی یہ زندگی بخش ہے۔ یہ آپ کو مایوس بناسکتی ہے اور کچھ نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام شاعروں پر یاس کا فلسفہ کیوں طاری رہتا ہے۔ اردو کے شاعروں کا رویہ فلسفیانہ، حقیقت پسندانہ اور رجائیت پر مبنی ہے۔ ان کے نصف درجن شاعر مسلم قوم کو اخوت، مساوات اور جمہوریت کے لیے اصولوں کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔ مسلمان شاعر کمیونسٹ ہے۔“
پریم چند کے یہ خطوط ان کی ذات ہی کا عکس نہیں، یہ ان کے عہد کے زبان و ادب کی صورتِ حال، سماج اور سیاست کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔