The news is by your side.

ایک آپ بیتی، جسے کتابوں کی دکانوں سے غائب کردیا گیا

”اس نے تجارتی طور پر بھارتی فلمیں دکھانے پر پابندی عاید کر دی اور ایک عام شہری کو بھارتی فلمیں دیکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا لیکن اپنے گھر میں وہ خود بھارتی فلمیں دیکھتا تھا۔ مجھے یہ حقیقت ان مشترکہ دوستوں کے ذریعے معلوم ہوئی جنھیں ضیاءالحق کی طرف سے یہ فلمیں دیکھنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔“

جی وہی ضیاءالحق جن کے لیے ”مردِمومن، مردِحق“ کے نعرے لگائے گئے اور جو ایوانِ اقتدار میں آنے سے دنیا چھوڑ جانے تک اسلامی نظام آرہا ہے کی نوید سناتے رہے۔ اس روایت کے راوی ہیں پاکستان کے صفِ اوّل کے سرمایہ داروں میں شامل، ہاشو گروپ کے سربراہ، ممتاز کاروباری شخصیت اور ملک میں ہوٹلنگ کی صنعت کا سب سے بڑا نام صدر الدّین ہاشوانی۔ یہ روایت ان کی خود نوشت کا حصہ ہے جو انگریزی زبان میں “Truth always prevails” کے عنوان سے شایع ہوئی اور اس کتاب کا ترجمہ ”سچ کا سفر“ کے نام سے کیا گیا۔ اس کتاب میں ایسے ایسے سچ تھے کہ روزنامہ ڈان کی 19 نومبر 2014 کو شایع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اسے کراچی میں کتابوں کی دکانوں سے غائب کر دیا گیا۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ کارستانی ضیاء الحق کے حامیوں کی تھی تو آپ غلط ہیں۔ اس وقت آج کی طرح سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی، اور اس خودنوشت میں جس سیاست داں کے بارے میں سب سے زیادہ انکشافات کیے گئے ہیں وہ ہیں آصف علی زرداری۔ یہاں ہماری صحافت کا ایک روشن پہلو بھی سامنے آتا ہے، جس اخبار نے اس کتاب کے ”لاپتا“ کر دینے کی خبر چھاپی، اس کے گروپ کے سربراہ کا بھی یہ تصنیف منفی تأثر پیش کرتی ہے۔ اس خود نوشت کی اہم بات یہ ہے کہ اسے سرمایہ داری کی دنیا سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت نے تحریر کیا، اور جہاں تک میرے علم میں ہے یہ پاکستان کی صنعتی و تجارتی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی پہلے شخص کی آپ بیتی ہے۔

کتاب کے مطالعے کا آغاز کرتے ہوئے میرا خیال تھا کہ یہ مصنف کی کاروباری جدوجہد اور ذاتی کام رانیوں کی ایک بیزار کُن داستان ہو گی، لیکن ہر ہر صفحے پر مجھے کسی ایسے سچ کا سامنا کرنا پڑا جو کوئی سرمایہ دار تو کجا ہمارے دانش ور اور سیاست داں بھی بولنے اور لکھنے کی کم ہی جرأت کر پاتے ہیں۔

اس کتاب میں سیاست دانوں اور حکم رانوں کے بارے میں انکشافات کے ساتھ قاری کی دل چسپی کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے۔ تو چلیے ”سچ کے سفر“ کے صفحوں میں چلتے ہیں۔

اس کتاب میں ہمیں دنیا کے اکثر کھرب پتی افراد کی طرح صدرالدّین ہاشوانی بھی عملی زندگی کا آغاز شدید مشقت سے کرتے نظر آتے ہیں۔ ہاشوانی کی معاشی تگ و دو کی شروعات ان کے بہنوئی شمس الدّین کے ساتھ شراکت سے ہوئی، یہ دراصل صدر الدّین کے بھائی حسن علی کی شراکت داری تھی، جو ساجھے کا کاروبار چھوڑ کر لندن پرواز کر گئے تھے، اب ان کی جگہ صدر الدّین نے لے لی۔ یہاں انھیں کاروباری سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے ساتھ اپنوں کی ”عنایات“ کا تلخ تجربہ بھی ہوا۔ اس مشترکہ کمپنی کا کاروبار بلوچستان کے دور دراز ساحلی مقامات تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ بولان میل کے ذریعے طویل سفر کی تھکان لیے بلوچستان پہنچتے اور پھر اس سرزمین کی جھلساتی گرمیاں اور یخ بستہ سردیاں جھیلتے اپنے فرائض ادا کرنے میں منہمک ہو جاتے۔

ان ابتدائی دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں،”بعض اوقات میں خود بھی اناج کی بوریاں اٹھاتا۔“ کہتے ہیں،”اپنے دفتر میں اکاﺅنٹینٹ، ڈاک بھیجنے والا، منیجر، چپراسی، عمومی نگران، سب کچھ میں بذاتِ خود تھا۔“ سفر کی صعوبتوں کا یہ عالم تھا کہ کبھی وہ ٹرک کے عقبی حصے میں سمائے مسافرت طے کر رہے ہیں اور کبھی ریت پر سو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بہن کے شوہر کے معاملے میں بہت احتیاط کی جاتی ہے، لیکن ہاشوانی نے اپنے سچ کو کسی تعلق کسی رشتے کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا۔ ان کا کہنا ہے”شمس الدّین لگاتار کام کے ذریعے مجھے نچوڑ رہے تھے۔“ آخر بہنوئی نے ان پر غبن کا الزام لگا دیا، اور وہ بوجھل دل کے ساتھ اپنا منافع اور سرمایہ لیے بغیر اس کاروبار سے الگ ہوگئے۔

ہاشوانی کی کہانی پڑھتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کاروباری دنیا میں اپنا راج برقرار رکھنے، حریفوں کو گرانے کے لیے اور مسابقت کے نام پر کیسی کیسی سازشیں رچی جاتی ہیں، کیا کیا حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ سب بھی پڑھنے کے لائق ہے، لیکن کتاب کے اہم ترین حصے ہمارے سیاست دانوں اور حکم رانوں سے ہوٹلنگ کی صنعت کے اس بے تاج بادشاہ کے تعلقات پر مبنی ہیں۔

وہ ایک جگہ لکھتے ہیں،”ایک دن (ذوالفقارعلی) بھٹو اپنے ایک سنیئر اور مشہور وکیل رام چندانی ڈنگو مل کو ملنے گئے، جس کی فرم (ڈنگو کمپنی) سے بھٹو نے اپنی قانونی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ یہ داستان مجھے ڈنگو مل کے بیٹے پرسی نے سنائی جو اس وقت ممبئی میں رہتا ہے۔ سنیئر ڈنگو مل نے کہا، ’زلفی! میرا مطلب ہے، تم نے تعلیم کو سرکاری تحویل میں لے لیا، کیوں؟ بھٹو نے قہقہہ لگایا اور کہا،”پریشان مت ہو، تمھارے اور میرے بچوں نے کون سا یہاں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنا ہے، کیا وہ یہاں پڑھ رہے ہیں؟“

مصنّف جہاں بھٹو پر تنقید کرتے ہیں وہیں وہ بھٹو کی کہانی کے ولن ضیاءُ‌ الحق کے بھی شدید نکتہ چیں ہیں اور انھیں ملک میں مذہبی عدم برداشت اور تشدد کا فروغ کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔ ایک تقریب میں جنرل ضیاء سے ملاقات کے موقع پر ان کا تأثر تھا،”ضیاءُ الحق کی آنکھوں سے مکاری اور عدم برداشت کا اظہار ہو رہا تھا۔“ اسی تقریب میں مشہور کالم نویس اردشیر کاﺅس جی بھی موجود تھے، جنھوں نے ضیاءُ الحق سے بڑی بے تکلفی کے ساتھ پوچھا،”شیمپیئن کی میری بوتل کہاں ہے؟“ جس پر ”ضیاءُ الحق کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔“

محمد خان جونیجو کو عام طور پر ایک شریف النفس سیاست داں اور دیانت دار وزیرِ اعظم سمجھا جاتا ہے، مگر ہاشوانی ان کے لیے جس قدر سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ انھوں نے کسی اور حکم راں اور سیاست کار کے لیے نہیں کیے۔ ”اس کے پیچھے ایک بدعنوان اور گھٹیا ذہن کا شخص چھپا ہوا تھا۔“ پھر انکشاف کرتے ہیں،”جونیجو نے جعلی دستاویزات کے ذریعے ایک مرسڈیز درآمد کی تھی۔ ایک دن اس کے سیکریٹری اقبال جونیجو نے مجھے ٹیلیفون کیا اور کار خریدنے کی درخواست کی۔ میں شش وپنج میں پڑگیا۔ میں نے کہا، ”مجھے کار کی ضرورت نہیں اور میں مرسڈیز نہیں چلاتا۔“ اقبال جونیجو کے اصرار پر جب انھوں نے کار کی دستاویزات کی چھان بین کی تو”معلوم ہوا کہ یہ جعلی ہیں۔ یہ کار امپورٹ ڈیوٹی بچانے کے لیے اسمگل کی گئی تھی اور جونیجو اپنی سیاسی حیثیت استعمال کر کے کار کو مقامی طور پر فروخت کر کے کثیر منافع کمانے کی کوشش کر رہا تھا۔“

ضیاء دور میں ہاشوانی پر بھٹو سے تعلقات کے شبے کی بنیاد پر ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔ انھیں گھر پر چھاپا مار کر گرفتار بھی کیا گیا۔ الزام لگا کہ انھوں نے اپنے عزیز پیار علی الانہ کے ذریعے بے نظیر بھٹو کو چندے کی مد میں پچیس لاکھ روپے دیے اور یوں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں معاونت کی۔ ”گھر پر چھاپے کے چند دن بعد بے نظیر نے پیار علی الانہ سے کہا،”وہ رقم کہاں ہے جو تم نے ہاشوانی سے وصول کی؟وہ رقم میرے یا پارٹی کے پاس کیوں نہیں پہنچی؟“ وہ لکھتے ہیں کہ 1983 کی ایک رات انھیں گھر پر ٹیلی فون موصول ہوا کہ ان کے میریٹ ہوٹل کے ڈسکو کلب میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے اور دو افراد اور ان کے گروہوں کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے، جو ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ یہ سُن کر ہاشوانی نے ہوٹل کے جنرل منیجر کو ہدایت کی ”ان لوگوں کو پکڑو اور اٹھا کر باہر پھینک دو، اگر ضرورت محسوس ہو تو انھیں ٹھڈے مار کر نکال باہر کرو۔“ یہاں ہماری ملاقات ایک بہت شناسا چہرے سے ہوتی ہے۔ اس رات کے اگلے روز کیا ہوا؟ صاحبِ کتاب سے سنیے،”اگلے دن تب میری آنکھ کھلی جب مجھے ایک چھوٹے سندھی جاگیردار اور ہوشیار سیاسی شخصیت حاکم علی زرداری کی کال آئی۔ اس کے ساتھ میری سرسری واقفیت تھی۔ اس نے دہاڑتے ہوئے کہا،”یہ تم نے کیا کر دیا، تمہیں میرے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟“ ہاشوانی کا جواب تھا،”اگر یہی تمھارے بیٹے کا کردار ہے تو پھر تم اسے گھر پر کیوں نہیں رکھتے؟ معاشرے میں انتشار پھیلانے کے لیے اسے بندوقوں کے ساتھ ہوٹلوں میں مت بھیجا کرو۔“

یہ خود نوشت آگے کی کہانی سناتے ہوئے کہتی ہے کہ جب بے نظیر برسرِاقتدار آئیں تو، ”زرداری اور اس کے حواریوں نے سرکاری افسروں کو میری کمپنیوں کے متعلق تفتیش کرنے پر لگادیا تاکہ کوئی ایسا ثبوت تلاش کیا جائے کہ جنرل ضیاء نے کبھی بھی مجھے کچھ مدد و معاونت فراہم کی تھی۔

ہاشوانی، آصف علی زرداری سے ایک ملاقات کا قصہ سناتے ہیں، جس میں انھوں نے زرداری سے مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقات کے حوالے سے تأثر جاننا چاہا تو جواب ملا،”وہ تمام احمق اور اوسط درجے سے بھی نیچے ہیں، جنہیں زمینی حقائق کا علم ہی نہیں۔“

ہاشوانی اپنے اغوا کے منصوبے کا بھی انکشاف کرتے ہیں، جس کا مقصد تھا،”مجھے کاغذات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا جس کے باعث میں اپنی جائیداد خصوصاً ہوٹلوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا اور مجھے دریائے سندھ میں پھینک دیا جاتا۔“ اس حوالے سے وہ اُس وقت کے سندھ کے کورکمانڈر جنرل آصف نواز سے اپنی دوستی اور ان کی مدد کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتے ہیں۔ صاحبِ تصنیف تین لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے دفتر میں ان سے ملنے آئے تھے، جس کا مقصد بتایا گیا کہ وہ مہران یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تقریب کے لیے چندہ لینے آئے ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ ایسی کوئی تقریب نہیں ہورہی تھی، اور یہ ملاقاتی کون تھے؟”جس شخص نے سیاہ چشمہ پہنا ہوا تھا وہ بشیر قریشی ہے اور دیگر دو افراد میں سے ایک فرد اس کا دستِ راست لغاری تھا۔ دونوں بدنام مجرم تھے اور جیے سندھ تحریک کا حصہ تھے۔“ بشیر قریشی اور لغاری کو دو ہفتے قبل جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ یہ رہائی اتنی خفیہ تھی کہ جنرل آصف نواز کے استفسار پر وزیرِاعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بھی اس سے لاعلم نکلے۔ اگلے دن سیدقائم علی شاہ نے جنرل آصف نواز کو بتایا،”ان دونوں کو اسلام آباد سے احکامات ملنے پر رہا کیا گیا ہے۔“

اگرچہ ہاشوانی نوازشریف کی تعریف کرتے ہیں، لیکن ان کا دور بھی صاحب کتاب کے لیے کوئی اچھی خبر نہ لایا۔ وہ، بہ قول ہاشوانی کے کان بھرے جانے کے باعث، سمجھتے تھے کہ صدرالدّین ہاشوانی نے پیپلز پارٹی سے مراعات حاصل کی ہیں۔ نتیجتاً ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر لیا گیا۔ نواز شریف اس تأثر کا بھی شکار تھے کہ ہاشوانی خود کو کسی سیاسی کردار کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ پھر کیا تھا، انھیں انکم ٹیکس نوٹس موصول ہوا اور ان کے ہوٹلوں کی طرف سے پی آئی اے کی پروازوں کو کھانا فراہم کرنے کا معاہدہ بہ یک جنبشِ قلم ختم کردیا گیا۔ اس دور میں انھیں فوجداری مقدمات میں ملوث کر کے گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی گئی، جس سے بچنے کے لیے انھیں قبائلی علاقوں کا رخ کرنا پڑا۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی ان کے مسائل جاری رہے۔ وہ مشرف کے بارے میں کہتے ہیں،”اس کی وجہِ شہرت کینہ پرور شخص کی تھی۔ ان کے مطابق، مشرف کے مقرر کردہ ”کج فہم“ چیئرمین نیب،”جنرل امجد کا ایک ہدف اور شکار صدرالدّین ہاشوانی تھا۔“

پاکستان کے طبقۂ امراء کے بارے میں عام تأثر یہ ہے کہ جس طرح (عمومی طور پر) اس طبقے کے افراد کا رہن سہن مغربی ہے، ان کے افکار و خیالات مشرقیت اور مذہب سے لاتعلق ہوں گے، لیکن صدرالدّین ہاشوانی کی کتاب پڑھتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ وہ مذہبی انتہاپسندی ہی نہیں ریاست کے مذہبی تشخص کے بھی مخالف ہیں، لیکن اپنے عقیدے اور اسلامی تعلیمات سے پوری طرح وابستہ ہیں، تاہم ان کی سوچ پر فرقہ واریت کی کوئی چھاپ نہیں۔ دیباچے میں لکھتے ہیں،”نبی اکرم ﷺ کے دور میں مسلمانوں کے درمیان کوئی فرقہ موجود نہ تھا۔ چاروں خلفاء، جنھوں نے نبی اکرم ﷺ کی اتباع کی، اسلام کے قیام اور فروغ میں ایک اہم کردار ادا کیا اور دین پر ان ابتدائی برسوں کے نقوش چھوڑے جو آج بھی زندہ ہیں اور جن کے متعلق ایک سچے مسلمان کا عقیدہ ہے کہ یہ ہمیشہ اس کے ساتھ موجود رہیں گے۔“

کراچی کی تاریخ کے کچھ ایسے واقعات ہیں جن کا زیادہ چرچا نہیں ہوا۔ ہاشوانی اپنے بچپن کی یادیں کھوجتے ہیں تو ایک ایسا منظر سامنے آتا ہے جو بتاتا ہے کہ مہربانی اور میزبانی اس شہر کی پرانی ریت ہے۔ ”دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی نازی فوج کے پولینڈ پر وحشت ناک حملے کے باعث تیس ہزار پولش پناہ گزیں اپنے ملک سے جانیں بچاکر کراچی آگئے، جہاں انھیں مقامی آبادی کی طرف سے خوش آمدید کہا گیا۔“ یوں بہ قول ہاشوانی،”برسوں پہلے ہم نے دور افتادہ مشرقی یورپ سے آنے والے تباہ حال اور وطن بدر ہونے والوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے تھے۔“

صدر الدّین ہاشوانی کی آپ بیتی پاکستان کی صنعت و تجارت اور سیاست کی کتنی ہی سیاہیاں سامنے لاتی ہے۔ اس کی سطروں میں کتنی ہی حیرتیں اور انکشافات چھپے ہیں۔ یہ امر بھی تعجب خیز ہے کہ کراچی میں زندگی اور تجارت کرنے والے صدرالدّین ہاشوانی نے اس شہر پر عشروں حکومت کرنے والی جماعت ایم کیوایم کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا، نہ مثبت، نہ منفی۔

یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ جس کتاب کا حوالہ دیا گیا اس کے مندرجات کا حوالوں کا لنک بھی اس مضمون میں شامل کردیا گیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں