The news is by your side.

اردو رسمُ الخط کے بعد صحّتِ زبان کو خطرہ

کہتے ہیں، تاریخ خود کو دہراتی ہے، مگر ہمارے ہاں اندیشے اور خدشات خود کو دہراتے ہیں۔ کہہ لیجیے کہ ہم برسوں سے خدشات کے شکنجے میں پھنسے ہیں۔ عشروں سے سنتے آرہے ہیں کہ “ملک نازک دور سے گزر رہا ہے”، “مارچ میں مارچ ہوگا”، “ستمبر ستم گر ثابت ہوگا” وغیرہ وغیرہ۔ اب اس میں “پاکستان ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے” کے خدشے کا اضافہ کر لیجیے۔

یہ تو خیر سیاسی معاملات تھے، مگر زبان و ادب سے متعلق بھی ایسے ہی اندیشے اور خدشے برسوں سے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ ان میں سے ایک اردو زبان کی موت کا خدشہ بھی ہے۔ بالخصوص اس کے رسم الخط کے مٹ جانے کا تو چند برس پہلے خاصا شور تھا۔ کئی سنجیدہ لکھاری بھی اس خوف میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اردو رسم الخط اب آخری سانسیں‌ لے رہا ہے چند ہی برس میں ختم ہو جائے گا۔

اب سے دس برس قبل معروف ادبی جریدے “سیپ” کے ایڈیٹر جناب نسیم درانی کا ایک انٹرویو پڑھا تھا، جس میں انھوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اردو رسم الخط چند برس میں ختم ہوجائے گا۔ گو ایسا نہیں ہوا، مگر اُس زمانے کا جائزہ لیا جائے، جب یہ بات انھوں نے کہی تھی، تو معلوم ہو گا کہ ان کے موقف کے پیچھے حقائق اور دلائل دونوں ہی کار فرما تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا، جب رومن اسکرپٹ، یعنی اردو کو انگریزی حروفِ تہجّی کی مدد سے لکھنے کا چلن عام تھا۔ اور اس کے پس منظر میں متعدد مسائل اور مجبوریاں کار فرما تھیں۔

پہلا مسئلہ نوجوان نسل کی اردو اسکرپٹ سے بڑھتی دوری تھی۔ یہ نسل پاکستانی کلچر میں رچے بسے شعرا اور ادیبوں کا نام تو سنتی تھی، اگر ان کے کام کو کوئی فلما دے، مثال کے طور پر منٹو پر فلم یا فیض احمد فیض پر ڈاکومنٹری بنا دے، تو اس سے محظوظ بھی ہوتی تھی، ان سے متعلق سیمیناروں اور مباحثوں میں بھی شریک ہو جاتی، مگر اردو اسکرپٹ سے دوری کے باعث انھیں براہِ راست پڑھنے سے قاصر رہتی۔ اس مسئلے کے سدباب کی ایک صورت یہی تھی کہ اقبال اور فیض کے اشعار، منٹو اور عصمت کے افسانوں کو رومن اردو میں ڈھال دیا جائے۔ اور یہ تجربہ کام یاب ہوا۔

اس کی مؤثر ترین شکل ان کتب کی صورت سامنے آئی، جن میں اردو اسکرپٹ کے ساتھ ساتھ رومن اسکرپٹ بھی شامل ہوتا تھا۔ بیرونِ ملک مقیم شعرا نے یہ اہتمام بھی کیا کہ ساتھ ہی دیوناگری یا ہندی اسکرپٹ بھی شامل کر دیا، تاکہ اُدھر بسنے والے ہندوستانی بھی اس سے استفادہ کرسکیں۔ پاکستانی پس منظر میں یہ ہمیں کچھ عجیب لگ سکتا ہے، لیکن اس کا اصل محرک ہندوستان میں مقبول اردو ادب تھا، جو اردو کے بجائے دیوناگری اسکرپٹ میں فروخت ہوا کرتا تھا۔ وہاں غالب اور منٹو کو دیوناگری ہی میں زیادہ پڑھا جاتا ہے۔

الغرض جب نسیم درانی نے یہ بیان دیا، اس وقت حالات رومن اور دیوناگری اسکرپٹ کے لیے سازگار تھے اور اردو رسمُ الخط بظاہر محدود ہوتا نظر آرہا تھا۔ پھر ایک مسئلہ اور تھا۔ لگ بھگ ڈیڑھ عشرہ قبل ہم ٹیکنالوجی کی دنیا سے پوری طرح جڑ چکے تھے۔ مزدور سے مل مالکان تک، سب کی جیبوں میں چھوٹا بڑا موبائل فون ہوا کرتا تھا۔ اور ایس ایم سروس بہت مقبول تھی۔ اس وقت موبائل فون اردو اسکرپٹ سے ہم آہنگ نہیں ہوئے تھے، لکھنے کے لیے صرف انگریزی میسر تھی۔ پاکستان میں انگریزی زبان بولنے اور لکھنے کی قابلیت اکثریت کے پاس آج بھی نہیں۔ تو سہل یہی تھا کہ رومن میں اپنی بات کہہ دی جائے۔ معمولی پڑھا لکھا، مڈل پاس کوئی بھی شخص خواہ وہ پرچون فروش ہو یا پتنگ ساز یہ کرسکتا تھا۔ ایک آٹھویں‌ جماعت پاس آدمی اپنی ناخواندہ ماں کو یہ مسیج ارسال کرسکتا تھا کہ وہ عید گاؤں میں گزارے گا اور یہ پیغام اس گھر میں‌ موجود نوعمر بچّہ، لڑکا کوئی بھی آسانی سے پڑھ کر اماں جی کے گوش گزار کرسکتا تھا۔

الغرض ٹیکنالوجی بھی اردو اسکرپٹ کی راہ میں رکاوٹ بن گئی تھی اور وہاں صارفین رومن لکھنے پرمجبور تھے۔ البتہ بعد ازاں یہی ٹیکنالوجی اردو رسم الخط کے لیے ایک رحمت ثابت ہوئی۔ جدید موبائل فونز نے دنیا کو حقیقی معنوں میں ایک گلوبل ولیج بنا دیا۔ سب کچھ ایک اسکرین پر سمٹ آیا۔ بات آڈیو کالز سے نکل ویڈیو کالز تک آگئی۔ اب آپ موبائل ہی سے ٹیکسی بک کریں، پیزا آرڈر کرنا ہو تو اس کی مدد لیں۔ فیس کی ادائیگی، پیسوں کی منتقلی کے لیے بھی بینک جانے کی ضرورت نہیں، موبائل ایپس موجود ہیں۔ الغرض تعلیم کے ساتھ ساتھ موبائل فون کاروبار کا بھی مؤثر ترین ذریعہ بن گیا۔ اس کے ذریعے یوٹیوب پر من پسند موضوع پر لیکچر بھی مل جائیں گے اور آپ اپنی پراڈکٹ بھی فروخت کرسکتے ہیں۔

البتہ موبائل فون پر موجود ایپس اور سہولیات کو دنیا کے ہر کونے میں موجود صارفین کی بنیادی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے لازم تھا کہ اُسے ان کی زبان میں ڈھالا جائے، اسے اتنا سہل بنا دیا جائے کہ ایک ناخواندہ شخص سے لے کر تعلیمی سند یافتہ تک، ایک ہی طریقے سے، ایک ہی کلک سے اسے استعمال کرسکے۔

تو جہاں سیل فون پر ٹیکسٹ کو دنیا کی دیگر زبانوں سے جوڑا گیا، وہیں یہ اردو سے بھی ہم آہنگ ہونے لگا۔ سیل فون پر اردو کی بورڈ آگیا، جو بہت تیزی سے اپنی غلطیاں درست کرتے ہوئے بہتر سے بہتر ہوتا گیا۔ اب تو یہ اتنا سنور چکا ہے کہ آن لائن دستیاب کی بورڈز سے زیادہ سہولت فراہم کررہا ہے۔

پھر کمپیوٹر پر اردو ٹائپنگ کے مقابلے میں سیل فون زیادہ سہل ثابت ہوئے۔ کمپیوٹر کے مخصوص بورڈ پر تو چاہے انگریزی ہو یا اردو، آپ کو اپنی انگلیوں کو تیزی سے حرکت دے کر لکھنے کے لیے اسے باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے۔ البتہ جب بات موبائل فونز کی آئی، تو ماہرین نے تمام حروفِ تہجی کو ان ہی چند بٹنوں میں سمو دیا، جو عام سیل فون میں دستیاب ہوتے ہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے یہ کی بورڈ بار بار برتا جانے لگا اور اردو لکھنے کا سلسلہ روز بہ روز بڑھنے لگا۔ یہ سب اتنا سادہ ہوگیا کہ وہ لوگ بھی، جنھوں نے برسوں سے اردو لکھنی چھوڑ رکھی تھی کیوں کہ انھیں اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی، وہ بھی واٹس ایپ پر ایک دوسرے کو اردو میں پیغامات بھیجنے لگے۔

اور یوں اردو رسمُ الخط کی موت سے متعلق جو خدشات اب سے ڈیڑھ عشرے پہلے سچ دکھائی دیتے تھے، اردو کے موبائل فونز سے ہم آہنگ ہونے، فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر دستیاب ہونے کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئے۔

گو ہمارے پاس ٹھوس اعداد و شمار نہیں، مگر یہ بات سہولت سے کہی جاسکتی ہے کہ اپنی بات کہنے کے لیے اردو رسمُ الخط برتنے میں گزشتہ ایک عشرے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ سلسلہ آنے والوں وقت میں دراز ہوتا رہے گا۔ اس لیے اب ہمیں‌ خدشات اور اندیشوں کو بھول کر یہ مان لینا چاہیے کہ ٹیکنالوجی نے اردو کو نئی زندگی عطا کر دی ہے۔

اب اسی ٹیکنالوجی کے طفیل غلط املا رواج پانےلگاہے اور زبان و بیان میں‌ بگاڑ بھی دیکھاجارہاہے۔ سو، رسمُ الخط کے خدشے سے آزاد ہو جانے کے بعد اب اردو داں طبقہ، ماہرینِ لسانیات اور صاحبانِ علم و ادب کو صحّتِ زبان سے متعلق تشویش ہے، تو ان کی تشویش بجا ہے۔

اس صورتِ‌ حال میں‌ منیر نیازی کا یہ شعر برمحل ہے یا نہیں‌، اس قضیے میں‌ پڑے بغیر شعر ملاحظہ کیجیے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

شاید آپ یہ بھی پسند کریں