The news is by your side.

دنیا کی مقبول ترین کتابیں: کیا آپ نے یہ لازوال کہانیاں پڑھی ہیں؟

علم خزانہ ہے، اور کتابیں ہمیں‌ اس خزانے تک رسائی دیتی ہیں۔

کتابوں ہی نے اپنے مصنّفین کو ہزاروں برس کی زندگی دی۔ یہ کتابیں ہی ہیں، جن کی بدولت تہذیبیں پنپتی رہی ہیں‌ اور معاشروں کی تعمیر ممکن ہوسکی۔ مذہب، تاریخ، سائنس، فنونِ لطیفہ، کھیل سے متعلق یہ کتابیں ہماری معلومات میں اضافہ اور ہمارے ذوق و شوق کی تسکین کرتی ہیں۔ انہی کتابوں کے ذریعے سقراط کی دانش، گوتم کے افکار، لنکن کے خیالات اور قائد اعظم کے الفاظ ہم تک پہنچے جو ہمیں معاشرت بھی سکھاتے ہیں‌ اور ترقی کا راستہ بھی دکھاتے ہیں۔

البتہ یہ بھی سچ ہے کہ ہر کتاب کے حصّے میں یکساں پذیرائی نہیں آتی۔ کتنی ہی ایسی کتابیں ہوں گی، جنھیں ان کی اشاعت کے بعد یکسر بھلا دیا گیا۔ کئی تو برسوں تک تاریخ کے ملبے تلے دبی رہیں اور پھر اچانک دریافت ہوئیں اور توجہ کا محور بن گئیں۔ کچھ کتابیں ایسی بھی ہوں گی، جو آج بھی گمنامی کی تاریکی میں اپنے حصّے کی روشنی پھیلانے کی منتظر ہوں گی۔

البتہ ادب کی تاریخ میں قلم سے نکلی کچھ ایسی کتب بھی ہیں، جو قارئین کے دلوں میں کھب گئیں اور ذہن پرنقش ہوگئیں۔ ان کتابوں نے مقبولیت کے حیران کن ریکارڈ قائم کیے۔ گو ان کی اشاعت کو برسوں گزر گئے، مگر وہ آج بھی زیرِ بحث ہیں۔

اس تحریر کا مقصد ایسی ہی کتابوں کی یاد تازہ کرنا ہے، جن کا عشق ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا، جن کا شمار مؤرخینِ ادب سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں کرتے ہیں۔

اس فہرست میں شامل کتابوں کا تعین ان کی ریکارڈ فروخت کے کلیے سے کیا گیا ہے۔ البتہ ان کی فروخت سے متعلق حتمی اعدد و شمار پیش کرنا لگ بھگ ناممکن ہے۔ کیوں‌ کہ یہ عمل عشروں پر محیط ہے اور کوئی ایسا طریقۂ کار موجود نہیں، جو اس کی سو فیصد درست نشان دہی کرسکے۔ تاہم یہ وہ کتب ہیں، جن کی مقبولیت اور اثرانگیزی پر مؤرخین و محققین کی اکثریت متفق ہے۔

1: دو شہروں کی کہانی: مصنف، چارلس ڈکنز
کتابوں‌ سے متعلق مختلف سروے اور ادبی دنیا سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ ایک مقبول کتاب رہی ہے۔ اکثریت نے دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کا سہرا چارلس ڈکنز کے اسی ناول A Tale of Two Cities (دو شہروں کی کہانی) کے سَر باندھا ہے۔ سن 1859 میں شایع ہونے والا یہ انگریزی میں تحریر کردہ ناول انقلابِ فرانس کے زمانے کے لندن اور پیرس کو کمال مہارت سے منظر کرتا ہے۔ کئی معتبر ادبی فہرستوں میں اس کا شمار عظیم ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ اس پر فلمیں بنیں، اسے تھیٹر اور ریڈیو پر بھی تواتر سے پیش کیا گیا۔ لگ بھگ تمام بڑی زبانوں میں ڈکنز کے اس شاہکار کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی دنیا کی مختلف زبانوں میں 200 ملین، یعنی بیس کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ گویا اگر ایک کاپی سے چار افراد نے استفادہ کیا، تو اب تک اسے ایک ارب افراد پڑھ چکے ہیں۔

2: دی لٹل پرنس۔ مصنف: انتوان دی سینٹ اگزوپیری
“اے ٹیل آف ٹو سٹیز” کے برعکس اردو قارئین کی اکثریت کے لیے “دی لٹل پرنس” زیادہ معروف نام نہیں، بالخصوص اس کا مصنّف تو بالکل ہی اجنبی ہے۔ البتہ عالمی ادب کے قارئین اس سے خوب واقف ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں، فرانسیسی میں تحریر کردہ اس ناول کا بیسویں صدی میں تسلسل کے ساتھ ترجمہ کیا گیا۔ یہ ناول مختلف سیاروں کے دورے پر نکلے ایک شہزادے کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس ناول کو بھی بارہا بڑے پردے اور ٹی وی کے لیے فلمایا گیا۔

دی لٹل پرنس کی 150 سے 200 ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اور فروخت کے حوالے سے یہ فقط ڈکنز کے ناول سے پیچھے نظر آتا ہے۔

3: ہیری پورٹر اور پارس پتھر۔ مصنفہ: جے کے رولنگ
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ کا ناول ہیری پورٹر بچوں کے ادب تک محدود ہے، تو آپ غلط ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اپنی اثر پذیری اور مقبولیت میں کہیں کہیں ڈکنز کے “اے ٹیل آف سٹیز” سے بھی آگے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ صرف جے آر آر ٹولکن کا “دی لارڈ آف دی رنگز” ہی اپنی اثرانگیزی میں اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

اس ناول کو کبھی ناشروں نے رد کردیا تھا اور جب یہ منظرِ عام پر آیا، تو مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ناول نے مصنّفہ جے کے رولنگ کو سونے میں تول دیا۔ یہ اتنا مقبول ہوا کہ اسے سات کتابوں کی سیریز میں سمویا گیا۔ ان سات کتب پر قسط وار فلمیں بنیں، اور یہ کام یابی کے ریکارڈ بناتی رہیں۔ ہیری پورٹر کا جادو کتب بینوں اور ناظرین پر خوب چلا، اور اس نے کروڑوں دلوں کو مسخر کیا۔

اس سیریز کے پہلے ناول Harry Potter and the Philosopher’s Stone کی دنیا بھر میں 120 ملین، یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔

4: اور پھر کوئی نہ رہا۔ مصنفہ: اگاتھا کرسٹی
سرّی ادب کی بے تاج ملکہ اگاتھا کرسٹی سے کون واقف نہیں، جس نے اسے نئی جہت عطا کی اور اس صنف میں نئے امکانات اور رجحانات کے لیے ماحول سازگار بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو مقام فلم سازی میں ہچکاک کو حاصل رہا، وہی سرّی ادب میں اگاتھا کرسٹی کو حاصل تھا۔ بالخصوص اس کے ناول And Then There Were None کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ سنہ 1939 میں شایع ہونے والے اس ناول کی اب تک ایک کروڑ سے زاید کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ گو یہ کہانی کئی بار فلم اور ٹی وی پر پیش کی گئی، مگر ناظرین کا اس سے جڑا تجسس آج بھی برقرار ہے۔ اگاتھا کرسٹی کو شیکسپیئر کے بعد سے زیادہ پڑھا جانے والا مصنّف بھی تصور کیا جاتا ہے۔

5: دی ہائبٹ۔ مصنف: جے آر آر ٹولکن
یہ محض اتفاق نہیں کہ برطانوی ادیب جے آر آر ٹولکن کا ذکر اس تحریر میں ایک بار آیا اور پھر اس کا ناول بھی اس فہرست کا حصہ بن گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مصنف نے نہ صرف قارئین ادب کے لیے لازوال تخلیقات پیش کیں، بلکہ اس کے زرخیر تخیل سے بعد ازاں فلم سازوں نے بھی خوب استفادہ کیا اور اس کے ناولز کو فلم کے پردے پر پیش کرکے کروڑوں کمائے۔

یوں تو ٹولکن کی سیریز “دی لارڈ آف دی رنگز” بھی بہت مقبول ہوئی، مگر اس کے ناول “دی ہائبٹ” (The Hobbit) کے حصے میں ناقابلِ یقین پذیرائی آئی۔ اس ناول کی بھی ایک کروڑ سے زاید کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔

قارئین، یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی چند کتب کا تذکرہ تھا۔ امید ہے، ان میں سے چند ناولوں سے آپ لطف اندوز ہوچکے ہوں‌ اور ان پر بنائی گئی فلمیں‌ بھی دیکھی ہوں۔ اگر آپ نے اس فہرست میں شامل کوئی ناول اب تک نہیں پڑھا ہے تو اس کا مطالعہ آپ کے وقت کا بہترین مصرف ثابت ہوسکتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں