The news is by your side.

بھارتی کھلاڑیوں کی تنگ نظری اور ہم

زندگی زندہ دلی کا نام ہے اور کرکٹ کو اگر ہم زندہ دلی کے اظہار کی ایک شکل کہہ لیں‌ تو کیا غلط ہے۔

جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی مقابلے کا جنون پاکستانیوں پر گویا سوار ہے اور وہ بہت پرجوش ہیں۔ اس عشق نے پاکستان سے انگلستان تک مداحوں کو ایک کر دیا ہے، باہم جوڑ دیا ہے اور کچھ اس طرح‌ کہ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکنے لگے ہیں۔

کہتے ہیں، کرکٹ مہذب، یعنی ایک جنٹلمن کا کھیل ہے، اس کا حسن اسپورٹس مین اسپرٹ میں پوشیدہ ہے۔ مقابلہ کتنا ہی کڑا ہو، کتنا ہی کٹھن ہو، کھلاڑی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سراہتے ہیں اور فراخ دلی اور کشادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

پاکستانی کھلاڑیوں نے کبھی تھڑ دلی کا مظاہرہ نہیں‌ کیا۔ یہاں تو ایسے لمحات بھی کیمرے کی آنکھ نے قید کیے جنھیں مثالی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب معاملہ کچھ اور ہی رہا۔

کیا آپ کو 1989 کا پاک بھارت میچ یاد ہے، جب وقار یونس کی تیز رفتار گیند پر بھارتی کپتان سری کانت کو ایل بی ڈبلیو قرار دیا گیا، تو وہ غصے سے آگ بگولا ہوگئے تھے۔ سری کانت اس فیصلے سے قطعی خوش نہیں تھے۔ اس وقت پاکستانی ٹیم کی جانب سے کپتان عمران خان نے کشادگی کی ایک روشن مثال قائم کی اور سری کانت کو امپائر کے فیصلے کے برخلاف دوبارہ بیٹنگ کی دعوت دے دی۔ یہ ایک بڑا فیصلہ تھا، جس کے نتائج میچ میں شکست کی صورت ظاہر ہوسکتے تھے، مگر بورے والا ایکسپریس، وقار یونس کی اگلی ہی گیند پر سری کانت وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے اور عمران خان کا یہ فیصلہ کرکٹ کی تاریخ میں ایک روشن مثال بن کر امر ہوگیا۔

تازہ ترین مثال موجودہ کپتان بابر اعظم کی ہے۔ جن کا اکثر مبصرین ویرات کوہلی سے موازنہ کرتے ہیں۔ البتہ بابر نے ہمیشہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے ویرات کو سراہا اور انھیں ایک بڑا کھلاڑی قرار دیا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ میچ کے دوران بھی پاکستانی کھلاڑی ویرات کوہلی کو بے پناہ احترام دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب بھارتی بلے باز برے دور سے گزرا رہا تھا، تو بابر اعظم نے ایک جنٹلمین کرکٹر والی کشادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ “آپ مضبوط رہیں، برا وقت جلد گزر جائے گا۔”

پاک بھارت اختلافات اور حریف ٹیم کے روایتی تصور کے تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ ایک مثبت طرزِ فکر کا اظہار تھا، جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔

اسی طرح جب کبھی کسی پاکستانی کھلاڑی کو کسی بھارتی کرکٹر کے مشورے سے فائدہ ہوا، اس نے برملا اس کا اعتراف کیا۔ سنہ 2016 میں مصباح الحق کی کپتانی میں پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کیا اور زبردست پرفارمنس سے مقابلے جیتے۔ اس سیریز کے ابتدائی میچز میں یونس خان کی فارم اتنی اچھی نہیں تھی۔ البتہ چوتھے ٹیسٹ میچ میں یونس نے شان دار کم بیک کرتے ہوئے 218 رنز کی یادگار اننگز کھیلی اور پاکستان کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ میچ آف دی میچ کا ایوارڈ وصول کرتے ہوئے جب یونس خان سے ان کی اننگز اور فارم کے بارے میں سوال ہوا، تو انھوں نے بڑے اطمینان اور سہولت سے دنیا کے سامنے یہ اعتراف کیا انھوں نے سابق بھارتی کپتان اظہر الدّین کے مشورے پر عمل کیا ہے، جنھوں نے انھیں ٹیلی فون پر پچ پر اپنی جگہ ٹکے رہنے کا مشورہ دیا تھا۔

اس کے برعکس بھارتی کھلاڑیوں میں ہمیں اس کشادگی اور فراخ دلی کی کمی نظر آتی ہے۔ بالخصوص جب سے بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے پرفارم کرنا شروع کیا ہے، چیمپیئنز ٹرافی اور ایشیا کپ میں بھارت کو شکست دی ہے، بھارت کے سابق کرکٹرز کے لہجے میں تلخی گہری ہوتی جارہی ہے اور پاکستانی ٹیم پر طنز کے تیر برسائے جارہے ہیں۔

وریندر سہواگ کا شمار بھارت کے بڑے کھلاڑیوں میں ہوتا تھا، بطور اوپنر انھوں نے اپنی ٹیم کو کئی فتوحات دلوائیں، مگر جتنے بڑے وہ بلّے باز ہیں، شاید اتنے بڑے انسان نہیں۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے، امپائر کے دو غلط فیصلے پاکستان کے خلاف نہیں جاتے، تو بھارت کی شکست یقینی تھی۔ البتہ سہواگ نے اس کانٹے دار مقابلے کے بعد بھی اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے طنزیہ تبصروں کو ترجیح دی۔ میچ کے بعد انھوں نے ایک میم شیئر کرتے ہوئے پاکستانیوں کو مشورہ دیا کہ وہ رونا بند کر دیں۔

اس کے فوری بعد انھوں نے ایک اور ٹویٹ داغا، جس میں “خالی جگہ پُر کریں” کے آپشن کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا مذاق اڑایا اور لکھا “نہ عشق میں، نہ پیار میں، جو مزہ ہے پڑوسی کی ہار میں۔”

جب پاکستان کو زمبابوے کے ہاتھوں ایک افسوس ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، تو سہواگ کو ایک بار پھر طنز کے تیر چلانے کا موقع مل گیا۔ پہلے مسٹر بین کی تصاویر پوسٹ کر کے پاکستان کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔

بعد ازاں زمبابوے کی صدر کے ٹویٹ کو ‘ری ٹویٹ’ کرتے ہوئے پاکستان پر ایک بار پھر طنز کیا اور مسٹر بین والے معاملے کو پاکستان کی دکھتی رگ قرار دے دیا۔

سہواگ نے رات بھر جاگ کر نیدرلینڈز اور ساؤتھ افریقا کا میچ بھی دیکھا، اس کے بارے میں ٹویٹ بھی کی، البتہ پاکستان کی بنگلادیش کے خلاف فتح اور سیمی فائنل تک رسائی کے معاملے پر پراسرار چپ سادھ لی۔

سہواگ تو چلیں ماضی میں بھی منہ پھٹ اور متعصب مشہور تھے، مگر سابق بھارتی فاسٹ بولر عرفان پٹھان بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔

جب پاکستان نے تمام تر خدشات کے باوجود سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا، تو انھوں نے ٹیم کو سراہنے کے بجائے پاکستان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ پڑوسیوں (پاکستانیوں) کے ٹویٹر اکاؤئنٹس صرف “سنڈے” کے نام پر زندہ ہیں۔

اس سے پہلے بھی جب پاکستان کو بھارتی ٹیم کے ہاتھوں ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد شکست ہوئی تھی، تو یہی عرفان پٹھان پاکستانیوں پر پھبتیاں کس رہے تھے۔

یہی رویہ دیگر شعبوں سے وابستہ بھارتیوں بھی رہا ہے، خواہ ان کا تعلق شوبز سے ہو، صحافت سے یا ایڈورٹائزنگ سے۔ آپ کو “موقع، موقع” والا طنزیہ اشتہار تو یاد ہی ہوگا، جس کا کرارا جواب سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں دیا تھا۔ مگر لگتا ہے، بھارتیوں کو ایسے مزید کرارے جوابوں کی ضرورت ہے۔

نوجوان بھارتی فلمی مبصر سُمت کھاڈل بھی پاکستانی ٹیم پر طنز کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جب بھارت کو جنوبی افریقا کے ہاتھوں شکست ہوئی، تو انھوں نے ٹویٹ کیا کہ پاکستان کو اب اپنے سفری بیگ تیار کر لینے چاہییں، اسی طرح وہ زمبابوے کے خلاف شکست پر بھی فضول باتیں کرنے سے باز نہ آئے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

یہ صرف چند مثالیں ہیں، ورنہ ایسے سیکڑوں ٹویٹس اور تبصرے پیش کیے جاسکتے ہیں، جو بھارتی کھلاڑیوں ہی نہیں وہاں کے فن کاروں کو تنگ نظر ثابت کرتے ہیں۔ البتہ ماضی اور آج بھی بھارت میں ایسے چند کھلاڑی موجود ہیں، جن کا رویہ پاکستان سے متعلق ہمیشہ مثبت اور حوصلہ افزا رہا۔ اس کی ایک بڑی مثال تو اظہر الدّین ہیں، جن کا اس تحریر میں بھی تذکرہ آیا، پھر دھونی اور ویرات کوہلی جیسے کھلاڑی بھی موجود ہیں، جنھوں نے ہمیشہ پاکستانی ٹیم کو سراہا۔

دیکھتے ہیں، آنے والے میچوں میں فتح‌ یا شکست کے بعد ہمارے پڑوسی کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کھلاڑی کسی بھی ملک کا ہو، اسے سیاست اور مذہب کے امتیاز سے دور رہنا چاہیے اور موقع ملے تو حریف کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانا چاہیے جو انھیں باوقار اور مہذب ثابت کرتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں