The news is by your side.

فٹبال ورلڈ کپ: سعودی عرب کی تاریخی فتح، 1994 کا عالمی مقابلہ اور پاکستانی سیاست

قطر میں فٹبال ورلڈ کپ میں سعودی عرب کے کھلاڑیوں کے ہاتھوں لیونل میسی کی ٹیم کی شکست کو اس کھیل کی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کہا جارہا ہے اور یہ بے سبب نہیں۔

وجہ فقط یہ نہیں کہ فیفا کی عالمی رینکنگ میں سعودی عرب 51 ویں نمبر پر ہے، جب کہ ارجنٹینا تیسرے پر، بلکہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دو بار عالمی چیمپیئن بننے والی میسی کی ٹیم اس وقت زبردست فارم میں تھی۔ ارجنٹینا کی ٹیم جولائی 2019ء کے بعد سے 35 میچوں میں ناقابلِ شکست رہی تھی۔ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اس ورلڈ کپ کے گروپ مرحلے میں ناقابلِ شکست رہتے ہوئے اٹلی کے 37 میچوں کا ریکارڈ توڑ ڈالے گی۔

اور لیونل میسی کے گول سے اس کا امکان پیدا بھی ہوگیا تھا، مگر پہلے ہاف میں سعودی عرب کی دفاعی لائن نے ارجنٹینا کو اپنی برتری مستحکم کرنے کا موقع نہیں دیا۔ دوسرے ہاف میں کھیل کا پانسہ یک لخت پلٹ گیا۔ پہلے صالح الشہری نے ایک غیرمتوقع گول داغا، جس کے کچھ ہی دیر بعد سالم محمد الدوسری نے شان دار گول کر کے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اس ضمن میں سعودی گول کیپر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

شکست کے بعد ارجنٹینا کے کپتان لیونل میسی نے جہاں اسے ایک بڑا دھچکا قرار دیا، وہیں ماہرین اور سینئر فٹبالروں نے بھی اسے فٹ بال ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ قرار دے دیا۔ شائقین کے لیے بھی یہ حیران کن ہے اور سعودی شہری بھی اپنی ٹیم کے کھیل پر حیران و ششدر رہ گئے۔

سعودی عرب کے شاہ سلمان نے اس یادگار جیت کے بعد عام تعطیل کا اعلان کردیا اور اس خوشی میں تفریحی مقامات میں داخلے کی فیس ختم کر دی گئی۔

یہ دل چسپ امر ہے کہ سعودی عرب پہلی ایشیائی ٹیم ہے، جس نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں ارجنٹینا کو شکست کی گہری کھائی میں دھکیلا ہے۔ اس واقعے نے 1990ء میں کیمرون کے ہاتھوں ارجنٹینا کی شکست کی یاد تازہ کر دی۔ یاد رہے کہ اس وقت عظیم کھلاڑی ڈیگو میرا ڈونا ٹیم کا حصّہ تھے۔

یقیناً سعودی عرب نے فٹبال کی دنیا میں کل ایک شان دار فتح اپنے نام کی ہے، مگر اس کی سنہری یادوں کا البم کھولا جائے تو کچھ اور تصاویر بھی دیکھنے کو ملیں گی۔ ان میں سب سے بڑی اور یادگار تصویر امریکا میں سنہ 1994ء میں ہونے والے ورلڈ کپ سے جڑی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا، جب سعودی عرب نے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا۔

سعودی ٹیم گروپ ایف میں نیدرلینڈز، بیلجیئم اور مراکش کے ساتھ تھی۔ ماہرین کو سعودی عرب سے زیادہ امید نہیں تھی، مگر نیدر لینڈز کے خلاف پہلے ہی میچ میں کھلاڑیوں نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس نے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ اس مقابلے میں پہلا گول سعودی کھلاڑی فواد انور امین نے داغا تھا، جس کے بعد نیدرلینڈز کو بھرپور جدوجہد کرنا پڑی تاکہ وہ میدان میں واپس آسکے۔

مراکش کے خلاف سعودی عرب نے مقابلہ ایک کے مقابلے میں دو گول سے جیت لیا تھا۔ ادھر بیلجیئم نے نیدرلینڈز کو شکست دے دی تھی، جس کے بعد کسی کو توقع نہیں تھی کہ سعودی عرب دوسرے راؤنڈ میں پہنچ سکتا ہے۔ مگر سعودی عرب نے بیلجیئم جیسی مضبوط ٹیم کو ایک صفر سے شکست دے کر جہاں دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، وہیں گروپ میں دو میچ جیتنے کے باوجود بیلجیئم کو میدان سے نامراد لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ایک بڑا واقعہ تھا، مگر اس سے بھی اہم تھا سعودی عرب کے فارورڈ سعيد العويران کا وہ خوب صورت گول، جسے ماہرین ورلڈ کپ کی تاریخ کا یادگار گول شمار کرتے ہیں۔

یوں یہ سعودی عرب میں فٹبال کی تاریخ کا دوسرا بڑا واقعہ ہوا مگر اس کا اثر اوّل الذّکر سے کچھ زیادہ ہے۔ اور ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جیت نے پاکستانی سیاست کو بھی کچھ حد تک متاثر کیا ہے!

قارئین جانتے ہیں کہ سعودی عرب سے ملنے والے تحائف فروخت کرنے پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو تنقید کا سامنا ہے اور وہ اسکینڈل کی زد میں ہیں۔ ان کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ ان کا یہ عمل، اس بات سے قطع نظر کہ وہ اس کا قانونی جواز رکھتے ہیں، محمد بن سلمان کو ناگوار گزرا اور اس لیے وہ ان کی پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں رہے۔ اس معاملے نے نیا رخ اس وقت اختیار کیا تھا، جب محمد بن سلمان نے اپنا دورۂ پاکستان منسوخ کیا۔ مخالفین نے الزام لگایا کہ اس کی وجہ عمران خان کا لانگ مارچ تھا۔

الغرض جب پاکستانی سیاست میں سعودی عرب موضوعِ بحث تھا، تو کھیل کے میدان سے آنے والی فتح کی خبر پر پاکستان کی دو اہم شخصیات نے بھی ٹویٹ کے ذریعے سعودی عرب کو مبارک باد دی۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے جہاں سعودی عرب کو پُرجوش انداز میں فٹبال میچ جیتنے پر مبارک باد دی، وہیں ولی عہد محمد بن سلمان کا ذکر بھی ضروری سمجھا اور کہا کہ ہماری خوشیاں‌ ایک ہیں۔

دوسری جانب سابق وزیرِاعظم عمران خان جو کرکٹ کی دنیا کے مشہور کھلاڑی رہے ہیں، نے بھی ضروری سمجھا کہ سعودی عرب کی ٹیم کو مبارک باد دیں۔ البتہ انھوں نے اپنے الفاظ کو ٹیم کی کارکردگی تک محدود رکھا اور ولی عہد، جن کی بطور میزبان کبھی گاڑی ڈرائیو کی تھی، ان کا نام لینے یا انھیں کچھ کہنے سے اجتناب برتا۔

دوستو، فٹبال کی دنیا کا یہ عالمی مقابلہ جاری ہے۔ دیکھتے ہیں سعودی عرب ہمیں مزید کتنے سرپرائز دیتا ہے اور یہ سرپرائز پاکستانی سیاست کو کیسے رنگتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں