The news is by your side.

”پٹھان“ نے مودی کی درگت بنا دی

انتہاپسند ہندوؤں کو شاہ رخ خان کی فلم کے ہاتھوں بدترین شکست

کس نے سوچا ہوگا کہ وہ نریندر مودی جسے راہول گاندھی نہ ہرا سکا، جس کی مقبولیت کے آگے کانگریس جیسی جماعت ہمت ہار بیٹھی، جس کی انتہا پسند سوچ کے سامنے بھارت کے سیکولر ازم نے گھٹنے ٹیک دیے، وہ ایک فلم ایکٹر کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو جائے گا۔ اور ایکٹر بھی وہ، جس کی مذہبی شناخت کو بنیاد بنا کر انڈسٹری سے نکالنے اور کیریئر کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا ہو۔

سنہ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس تقسیم کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ کانگریس کا مؤقف تھا کہ ہندوستان میں ہندو، مسلمان مل جل کر رہتے ہیں، اور یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں ہر مذہب اور ثقافت کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر ہیں، ایسے میں مسلمانوں کا ریاست کا مطالبہ غیرمنطقی بات ہے۔ مگر تاریخ نے قائد اعظم کی بصیرت کے حق میں گواہی دی۔ پنڈت نہرو کی برسوں کی سیکولر حکومت بھی ہندوستانی سماج سے ذات پات اور مذہبی تعصب کو نہ کھرچ سکی۔ اس کی ابتدا تو ایک انتہا پسند ہندو کے ہاتھوں گاندھی جی کے قتل کی صورت ہو ہی گئی تھی، مگر جلد ہی اردو کو دیوناگری رسم الخط سے تبدیل کر دیا گیا۔ قوم پرستی کو ہوا دی گئی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ فلم اور اسکرپٹ کی طاقت کو بھی استعمال کیا اور بالی وڈ کے ستھری نکھری اردو بولنے والے امتیابھ بچن سمیت کئی اداکار بلاضرورت سنسکرت الفاظ برتنے لگے۔ اس انتہا پسندی کا نتیجہ بابری مسجد کی شہادت کی صورت سامنے آیا۔ انتہا پسندی پر ریاست روک لگانے میں ناکام رہی۔ صورت حال یہ ہوئی کہ گجرات کے قسائی کے نام سے بدنام نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن بیٹھے۔ وہ شخص جسے کئی یورپی ممالک مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کے باعث ویزا دینے کو تیار نہیں تھے، انھیں بادلِ نخواستہ ان صاحب کے لیے سرخ قالین بچھانا پڑا۔

مودی کی آمد کے ساتھ ہی چند بڑے فیصلے کیے گئے۔ ہندوتوا کے تصوّر کو عملی جامہ پہنانے اور مسلمانوں کو مرکزی دھارے سے الگ کرنے کے اقدامات شروع ہوگئے۔ اس ضمن میں جہاں زندگی کے دیگر شعبوں پر ضرب لگائی گئی۔ وہیں بالی وڈ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اور یہ قابلِ فہم تھا۔ دراصل بالی وڈ میں دلیپ کمار (یوسف خان) کے زمانے سے مسلمانوں کا سکّہ چل رہا تھا۔ اداکار ہوں، ہدایت کار یا گیت نگار، مسلمان فن کار چھائے ہوئے تھے۔ جس وقت نریندر مودی کو اقتدار ملا، انڈسٹری میں‌ عامر خان، شاہ رخ اور سلمان خان کا طوطی بول رہا تھا۔

بی جے پی نے کہیں خاموشی سے اور کہیں علانیہ شائقین میں انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دینا شروع کیا۔ اس کے لیے بائیکاٹ گینگ تشکیل دیا گیا۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال شروع ہوا۔ جعلی فلم ناقد پیدا کیے گئے۔ ساتھ ہی کچھ ایسے اداکاروں کو ابھارا گیا، جو خانز کا نعم البدل ثابت ہوسکیں۔ اس ضمن میں اکشے کمار، اجے دیوگن اور رنویر سنگھ کو سپورٹ کیا گیا۔ جلد ان اداکاروں کی مانگ اور مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا، جب کہ حیرت انگیز طور پر خانز کی فلمیں ناکام ثابت ہونے لگیں۔ ان کی فلم پردے پر سجنے سے پہلے ہی کوئی نہ کوئی تنازع کھڑا کردیا جاتا اور اس کے لیے خاص طور پر مذہب کو ہتھیار بنایا جاتا۔

اسی اثناء میں ایک طرف ساؤتھ کی انڈسٹری نے سَر اٹھایا تو دوسری طرف کورونا وائرس آن دھمکا۔ یوں ناقدین کے مطابق بالی وڈ کی کمر ٹوٹ گئی۔ اور خانز بھی بہ ظاہر سائڈ لائن لگ گئے۔ اس کے بعد انتہاپسند بائیکاٹ گینگ تو جیسے شیر ہوگیا۔ کورونا کے بعد اس نے عامر خان جیسے بڑے اسٹار کی فلم کو دھول چٹا دی۔

رنویر سنگھ کو، جو اب ان کی نظروں سے اتر گیا تھا، پے در پے ناکامیاں جھیلنے پڑیں۔ کئی بڑی فلمیں فلاپ ہوئیں۔ بڑے بڑے فن کار بائیکاٹ کے ڈر سے خاموش ہوتے چلے گئے۔ ایک طرف فن کار برادری نے سماجی مسائل پر مؤقف پیش کرنے سے اجتناب شروع کر دیا، دوسری طرف ”کشمیر فائلز“ جیسی پروپیگنڈہ فلمز نے ریکارڈ بزنس کر لیا۔ یوں لگنے لگا تھا کہ اب انتہا پسندی نے پوری طرح انڈسٹری کو نگل لیا ہے۔ ایسا میں ایک سپر اسٹار نے بغاوت کا علَم اٹھایا اور ایک ایسی فلم بنا کر میدان میں اترنے کا اعلان کیا، جو مودی کے طرزِ فکر کے یک سَر خلاف تھی۔

یاد رہے کہ انتہا پسند یہ اعلان کر چکے تھے کہ اب مغلوں سمیت کسی ایسے تاریخی کردار کو فلموں میں مثبت انداز میں پیش نہیں کیا جائے گا، جس نے باہر سے آکر ہندوستان پر راج کیا ہو۔ اسی سوچ کے تحت سنجے لیلا بھنسالی کی فلم میں ”پدماوت“ میں خلجی اور ”پانی پت“ میں احمد شاہ ابدالی کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ ادھر پرتھوی راج چوہان اور تانا جی کو قوم پرست نئے ہیروز کے طور پر پیش کرنے لگے تھے۔ ایسے میں کوئی بیوقوف ہی ”پٹھان “ کے ٹائٹل کے ساتھ فلم بنانے کا سوچ سکتا تھا۔ مگر کنگ خان کہلانے والے شاہ رخ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا۔

اس فلم کی ریلیز سے قبل شاہ رخ خان شدید مشکلات کا شکار تھے۔ ان کی آخری ہِٹ فلم (چنائی ایکسپریس) 2014ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد بیش تر فلمیں یا تو ایوریج رہیں، یا ناکام۔ آخری فلم ”زیرو“ تو گویا ڈھے ہی گئی۔ لوگ کہنے لگے کہ خان کا کیریئر ختم ہوگیا۔ پھر کورونا کی وبا آگئی، جس سے فلمی سرگرمیاں مزید سمٹ گئیں۔ پھر خان کے بیٹے کی ڈرگ کیس میں گرفتاری کا معاملہ سامنے آیا۔ الغرض شاہ رخ خان جو شدید الجھنوں کا شکار تھے، ایسے میں ”پٹھان “ جیسے متنازع ٹائٹل کے ساتھ واپسی کا اعلان کیا۔ اِس پر مستزاد، فلم کی ہیروئن (دپیکا پاڈوکون) کو ایک پاکستانی ایجنٹ دکھایا جاتا ہے۔ اور مزید یہ کہ فلم کے ولن (جان ابراہام) کے لیے ایک سابق را ایجنٹ کا کردار تراشا جاتا ہے، جو اب اپنے ہی ملک کے خلاف ہوگیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اس فلم میں ہر وہ چیز تھی، جو مودی سوچ کے خلاف تھی۔ یہ ایک ایسی فلم تھی، جس کے لیے کسی قسم کی قبولیت نہیں تھی اور جس کا بائیکاٹ طے تھا۔ مخالفین نے اپنے ہتھیاربھی تیز کر لیے تھے، مگر جوں جوں فلم کی ریلیز کا وقت قریب آتا گیا، اس کے انتظار میں‌ شائقین کی دیوانگی بڑھتی چلی گئی۔ شاہ رخ خان کو طویل خاموشی اور صبر کا پھل ملا۔ ناظرین سنیما کی طرف کھنچے چلے آئے۔ فلم کی ایڈوانس بکنگ کو دیکھتے ہوئے بائیکاٹ گینگ کی ہوائیاں اڑنے لگیں اور اس فلم کو دھماکے دار اوپننگ ملی۔

57 کروڑ نیٹ بٹور کر فلم نے سب سے بڑی اوپننگ کا نیا ریکارڈ بنایا۔ اگلے روز ”پٹھان “ نے اپنا ہی ریکارڈ توڑ کر ایک دن میں 68 کروڑ کما لیے۔ فلم تیز ترین سو کروڑ، تیز ترین دو سو کروڑ اور تیز ترین تین سو کروڑ کرنے والی فلم بن گئی۔ اِس نے پہلے دنگل کا 383 کروڑ کا ریکارڈ کراس کیا۔ اور پھر کے جی ایف ٹو کے 434 کروڑ کے جادوئی نمبر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ناقدین کا خیال تھا کہ شاید اب یہ رفتار دھیمی پڑ جائے۔ مگر ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ شائقین کی دیوانگی عروج پر تھی۔ فلم آگے بڑھتی گئی اور بالآخر باہو بلی ٹو کے ہندی ورژن کا 510 کروڑ کا ریکارڈ، جو کل تک ناممکن لگتا تھا، اُس اداکار کے ہاتھوں تہس نہس ہوگیا، جس کے لیے بارے میں اعلان کر دیا گیا تھا کہ اس کا کیریئر ختم ہو گیا۔ ناقدین کا خیال تھا کہ فلم ہندوستان میں 550 کروڑ نیٹ، جب کہ دنیا بھر میں گیارہ سو کروڑ کے بزنس کا سنگِ میل عبور کر لے گی، جو ایک ناقابلِ یقین کارنامہ ہے۔

کنگ خان کی فلم نے اُس تصوّر کو توڑ دیا کہ بالی وڈ اور فلم بین انتہا پسندوں کے نرغے میں آگئے ہیں، یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا کہ بائیکاٹ گینگ ہر فلم کو شکست دے سکتا ہے اور یہ تصوّر بھی پارہ پارہ ہوگیا کہ مودی ازم نے ہندوستانیوں کے دل سے مسلمان فن کاروں کی محبّت اور ان کا جنون کھرچ ڈالا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہاں کے فلم بین اب بھی خانز کے گرویدہ ہیں اور شاہ رخ خان کی بلاک بسٹر فلم نے اس پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے۔ توقع ہے کہ آنے والی شاہ رخ کی فلم اس امر کی توثیق کرے گی اور مودی جی کو ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں