The news is by your side.

دوحہ پروگرام آف ایکشن : ‘امکان سے خوش حالی تک’

دنیا کے کم زور ترین ممالک کی قیادت دولت مند ملکوں کی طرف دیکھ رہی ہے

کم ترقی یافتہ ممالک (Least Developed Countries) سے متعلق کانفرنس ہر 10 سال کے بعد منعقد ہوتی ہے اور اس سال پانچویں کانفرنس کو اسی مناسبت سے ‘ایل ڈی سی 5’ کا نام دیا گیا تھا۔

اس میں‌ شریک ممالک کی قیادت نے دوحہ پروگرام آف ایکشن (ڈی پی او اے) پر عمل درآمد کے لیے ٹھوس اقدامات کی منظوری دی۔ اس پروگرام کا مقصد ایل ڈی سی اور ان کے ترقیاتی شراکت داروں کے مابین وعدوں کی تجدید اور انہیں مضبوط بنانا ہے اور یہ کانفرنس دنیا کے کم زور ترین ممالک میں‌ تبدیلی لانے کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔

قطر کے دارُالحکومت دوحہ میں یہ کانفرنس 5 مارچ سے 9 تک جاری رہی جس میں اقوامِ متحدہ کےسکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے اپنے خطاب میں کہا کہ دولت مند ممالک کو چاہیے کہ وہ ’ظالمانہ چکر میں پھنسے‘ دوسرے ممالک کی مدد کے لیے سالانہ 500 ارب ڈالر فراہم کریں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دو غریب ترین ممالک افغانستان اور میانمار دوحہ اجلاس میں شریک نہیں کیوں کہ ان کی حکومتوں کو اقوام متحدہ تسلیم نہیں کرتی جب کہ دنیا کی کسی بھی بڑی معیشت کے راہ نما نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

دوحہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے خطاب کیا، اور کہا کہ ”دستاویزات پر دستخط کرنے یا کانفرنسوں میں شرکت سے وعدے یا ذمہ داریاں ختم یا شروع نہیں ہوتیں۔ انہیں 2030 کی جانب ہماری کوششوں کا لازمی حصّہ اور پوری دہائی پر محیط ہونا چاہیے۔”

‘امکان سے خوش حالی تک’ کے عنوان کے تحت اس اجتماع کا مقصد ایل ڈی سی میں رہنے والے 1.2 بلین لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرنے کے لیے متغیر تبدیلی پیدا کرنا تھا۔

‘ایل ڈی سی 5’ میں شرکا کی تعداد تقریباً 9,000 تھی جن میں 46 سربراہانِ حکومت اور قریباً 200 وزرا اور نائب وزرا بھی شامل تھے جن کا ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ تھا کہ وہ ایل ڈی سی میں سماجی معاشی اور ماحولیاتی ترقی کے لیے فوری امداد کا سلسلہ شروع کریں۔

اگر ہم کسی ملک میں غربت اور افلاس اس کی ترقی اور بڑھوتری کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو اس بالکل درست جانچ کا طریقہ جی ڈی پی پر کیپیٹا یا مجموعی ملکی پیداوار اور فی کس آمدنی کا تخمینہ لگایا جانا ہے۔ یعنی کسی ملک کی مجموعی پیداوار اور لوگوں کی فی کس آمدنی کتنی جس میں کہ اشیاء اور مخصوص وقت میں فراہم کی جانے والی سروسز کو سالانہ یا سہ ماہی بنیاد پر جانچنا ہے۔ اسی فارمولے اور طریقے کی مدد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کسی بھی شعبے میں ترقی کا کیا حال ہے، اور کس طرح ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی نظر میں جن ممالک میں بہت سے اشاریوں میں سماجی معاشی ترقی کی شرح بہت کم ہے، وہ ایل ڈی سی کے ذیل میں آتے ہیں۔

یہاں ہم اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر اردو زبان میں شایع ہونے والے مضمون کی مدد سے جانیں گے کہ دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کون سے ہیں اور ان کے مسائل کیا ہیں؟

1۔ کم ترقی یافتہ ممالک کون ہیں؟
ورلڈ بینک کے مطابق ایسے تمام ممالک میں مجموعی قومی فی کس آمدنی (جی این آئی) 1,018 امریکی ڈالر سے کم ہے۔ ان کے مقابلے میں امریکہ میں یہ آمدنی 71,000 ڈالر، فرانس میں 44,000 ڈالر، ترکیہ میں 9,900 ڈالر اور جنوبی افریقہ میں 6,530 ڈالر ہے۔

غذائیت، صحت، اسکولوں میں داخلے اور خواندگی کے اشاریوں میں بھی ان ممالک کی کارکردگی بہت خراب ہے جب کہ ماحولیاتی اعتبار سے کمزوری کے اشاریوں میں ان کا درجہ بہت بلند ہے جو تفاوت، زراعت پر انحصار اور قدرتی آفات کے سامنے غیرمحفوظ ہونے جیسے عوامل کی شدت کو بیان کرتے ہیں۔

اس وقت کم ترقی یافتہ ممالک کی تعداد 46 ہے جن کی بڑی اکثریت کا تعلق افریقہ سے ہے۔ (تفصیل نیچے دیکھیے) اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل ہر تین سال کے بعد اس فہرست کا ازسرنو جائزہ لیتی ہے۔ 1994 اور 2020 کے درمیانی عرصہ میں چھ ممالک اس فہرست سے نکل آئے ہیں۔

2۔ کم ترقی یافتہ ممالک کو کون سے مسائل درپیش ہیں؟
اس وقت 46 کم ترقی یافتہ ممالک میں 1.1 ارب لوگ رہتے ہیں جو کہ دنیا کی آبادی کا 14 فیصد اور تاحال غربت میں زندگی گزارنے والی آبادی کا 75 فیصد سے زیادہ ہیں۔

ایل ڈی سی کے شدید غربت کا شکار ہونے اور پسماندگی میں رہنے کا خطرہ دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ وہ خارجی معاشی خطرات، قدرتی اور انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات، چھوت کی بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلی کے سامنے بھی غیرمحفوظ ہوتے ہیں۔

اس صدی کے دوران عالمی حدت میں تقریباً 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے ایل ڈی سی تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ کاربن کے اخراج میں ان ممالک کا بہت کم کردار ہے لیکن یہ ملک موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات کی زد میں ہیں۔

ایل ڈی سی کووڈ۔ 19 سے بری طرح متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ 2020 میں ان میں سے آٹھ کے سوا دیگر ممالک میں شرح نمو منفی رہی اور وہاں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں وبا کے اثرات تادیر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

قرض تمام ایل ڈی سی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان میں چار ممالک (موزمبیق، ساؤ ٹومے اینڈ پرنسپے، صومالیہ اور سوڈان) قرض واپس کرنے کی استطاعت کھو بیٹھے ہیں اور 16 کو انہی حالات کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

اس طرح ایل ڈی سی کو عالمی برادری کی انتہائی توجہ درکار ہے۔

3۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ایل ڈی سی کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
اقوام متحدہ نے عالمی معیشت میں ایل ڈی سی کی بڑھتی ہوئی پسماندگی کو ختم کرنے اور انہیں پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوششیں 1960 میں ہی شروع کر دی تھیں۔

اس وقت سے اب تک اقوام متحدہ نے ایل ڈی سی پر خصوصی توجہ دی ہے، انہیں عالمی برادری میں انتہائی غیرمحفوظ ملک تسلیم کیا ہے اور انہیں درج ذیل مخصوص فوائد مہیا کیے ہیں:

ترقیاتی مالیات: خاص طور پر عطیہ دہندگان اور مالیاتی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ مالی امداد اور قرضے۔

کثیر فریقی تجارتی نظام: جیسا کہ منڈی تک ترجیحی رسائی اور خصوصی برتاؤ۔

تکنیکی امداد: خصوصاً تجارتی معاونت کے لیے۔

پہلی ایل ڈی سی کانفرنس 1981 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہوئی تھی۔ 40 سال مکمل ہونے کی مناسبت سے اس کانفرنس کا اجلاس 2022 میں ہونا تھا لیکن کووڈ کے باعث اسے رواں سال تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔

4۔ دوحہ پروگرام آف ایکشن کیا ہے؟
دوحہ پروگرام آف ایکشن (یا ڈی پی او اے) ایل ڈی سی کے لیے ترقیاتی لائحہ عمل ہے جس پر مارچ 2022 میں اتفاق کیا گیا تھا۔

اس میں درج ذیل چھ بنیادی باتیں شامل ہیں:

غربت کا خاتمہ اور صلاحیتوں میں اضافہ۔
کمزوریوں پر قابو پانے اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کی طاقت سے کام لینا۔
خوشحالی کے محرک کے طور پر ساختیاتی تبدیلی میں تعاون۔
ایل ڈی سی کی بین الاقوامی تجارت بڑھانا اور علاقائی انضمام۔
موسمیاتی تبدیلی اورماحولیاتی انحطاط پر قابو پانا، کووڈ۔ 19 وبا سے بحالی اور آئندہ بحرانوں کے خلاف مضبوطی پیدا کرنا۔
بین الاقوامی یکجہتی پیدا کرنا اور عالمگیر شراکتوں کو تقویت دینا۔

‘ڈی پی او اے’ پر مکمل عمل درآمد سے ایل ڈی سی کو کووڈ۔ 19 وبا اور اس کے منفی سماجی و معاشی اثرات سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے سمیت ایس ڈی جی کے حصول کے لیے درست راہ پر آنے میں مدد ملے گی۔

کم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست:
مارچ 2023 تک اقوام متحدہ کی کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں درج ذیل 46 ملک شامل تھے: افریقہ (33 ممالک): انگولا، بینن، برکینا فاسو، برونڈی، وسطی جمہوریہ افریقہ، چاڈ، کوموروز، جمہوریہ کانگو، جبوتی، اریٹریا، ایتھوپیا، گیمبیا، گنی، گنی بساؤ، لیسوتھو، لائبیریا، مڈغاسکر، ملاوی، مالی، موریطانیہ، موزمبیق، نائیجر، روانڈا، ساؤ ٹومے اینڈ پرنسپے، سینیگال، سیرالیون، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، تنزانیہ، ٹوگو، یوگنڈا اور زیمبیا۔

ایشیا (9 ممالک): افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، عوامی جمہوریہ لاؤ، میانمار، نیپال، ٹیمور۔لیسٹے اور یمن۔

غرب الہند (ایک ملک): ہیٹی

الکاہل (3 ممالک): کیریباٹی، جزائر سولومن اور ٹوالو

شاید آپ یہ بھی پسند کریں