The news is by your side.

چندریان 3اور ہم

ہمارے روایتی حریف اور ‘ازلی دشمن’ بھارت نے بھی چاند پر اپنے پاؤں پسار لیے ہیں۔ کل تک جو ملک اپنی فلموں میں محبوب کو چاند سے مشابہت دیتا تھا، آج حقیقت میں اس پر جا پہنچا ہے اور ایک ہم ہیں جن کی چاند سے محبّت سال میں صرف دو بار رمضان اور عید پر ہی نظر آتی ہے بلکہ اس موقع کو بھی چاند نظر آیا یا نہیں آیا کے جھگڑے کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

چاند ہمیشہ سے ہی زمین پر بسنے والوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انسان کو چاند سے اتنا پیار ہے کہ وہ اپنی محبوب شخصیت کو چاند، چندا، چاند کا ٹکڑا پکارتا ہے۔ بچپن میں‌ اسے چندا ماموں کہنے والے یہ بھی سنتے رہے ہوں گے کہ وہاں ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ کات رہی ہے اور یہ بھی کہ چاند پر پریاں رہتی ہیں لیکن شعور کی منزل پر پہنچے تو ہمیں چاند سے ماموں بھانجے کا رشتہ کہیں دکھائی نہیں دیا اور جب انسان نے وہاں قدم رکھے تو معلوم ہوا کہ وہاں نہ کوئی بڑھیا چرخا کات رہی ہے اور نہ ہی وہ پریوں کا مسکن ہے۔ وہاں آکسیجن نہیں‌ ہے بلکہ اس کی سطح پر چھوٹے بڑے گڑھے اور مٹی ہے لیکن تحقیق اور جستجو کرنے والوں کے لیے اس مٹی اور گڑھوں میں بھی بہت کچھ ہے۔

آج زمین پر ترقی کی منازل طے کرنے کے بعد دنیا کے ممالک خلا کو تسخیر کر رہے ہیں۔ چاند پر امریکا، چین، روس پہلے ہی پہنچ چکے ہیں، اب ایران اور جاپان بھی ہمت پکڑ رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ خود کو ہی تسخیر کرنے میں لگے ہیں۔ دنیا سے مقابلہ کرنے کے بجائے ہم خود سے مقابلہ کررہے ہیں اور جانے انجانے میں اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ چاند ہمارے لیے بھی اہم ہے لیکن کمند ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ ہمارے اس کو چاہنے کے انداز کچھ اور ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم اسی بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ چاند ہوا یا نہیں ہوا، روزہ کب ہوگا اور عید کب۔ بعض اوقات رات گئے تک قوم کو اس آزمائش سے گزارا جاتا ہے۔ اب تو ہمارے لیے یہ بھی یہ باعثِ‌ تشویش ہے کہ چاند دشمن کے قبضے میں چلا گیا ہے اگر اس نے کوئی گڑبڑ کی اور اسے ہمارے کسی تہوار پر شرارتاً چھپا لیا تو ہم عید، بقرعید کیسے مناسکیں‌ گے اور بالخصوص رمضان پر چاند دیکھنے کے جھگڑے کا سالانہ شغل کیسے کریں گے؟

ہمارے ‘دشمن ملک’ بھارت کا خلائی مشن چندریان 3 (چاند گاڑی) کے ذریعے کامیابی سے مکمل ہوگیا ہے لیکن کیا ہم اگلی چند دہائیوں میں‌ بھی ایسی کوئی کامیابی حاصل کر سکیں‌ گے؟

دو ناکام مشن کے بعد بھارت کے چندریان 3 کی کامیابی اس کے عزمِ مسلسل کی علامت ہے لیکن ہمارا عزم دیکھنا ہو اور ترجیحات جاننا ہوں تو یہ بات کافی ہےکہ جس وقت بھارت اس کامیابی پر دنیا بھر سے تہنیتی پیغامات وصول کررہا تھا، عین اس وقت پاکستان کے سابق وزیراعظم شہباز شریف قوم کو بتا رہے تھے کہ شکر ہے تین ارب ڈالر کا قرض منظور ہو گیا اور اس پر ہمارے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ’’الحمدللہ‘‘ کا ٹویٹ کر رہے تھے۔

پاکستان اور بھارت دونوں نے ایک ساتھ ہی برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ آج ہمارا روایتی حریف اور پڑوسی ملک چاند پر کمند ڈال چکا اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ دنیا کی تقریباً درجن بھر بڑی کمپنیاں جن میں مائیکرو سافٹ اور گوگل بھی شامل ہیں، ان کے سی ای او بھارتی شہریت کے حامل ہیں اور وہ اپنے ملک کے مفاد میں کمپنیوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بات صرف عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں کے اس عہدے تک ہی محدود نہیں، آج بھارتی نژاد شخصیات برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ اور سپر پاور امریکا میں نائب صدر کے عہدوں پر بھی متمکن ہیں۔ دوسری جانب ہم دنیا میں ایک بھکاری قوم اور مقروض ملک کے طور پر پہچانے جارہے ہیں۔ پاکستان کی پہچان صرف امداد مانگنے اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ملک، دہشتگردی، کرپشن کے ناسور میں لتھڑے سیاستدان اور اشرافیہ، سیاسی انارکی، معاشی ابتری ہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اور کیسے بھارتیوں نے ان کمپنیز کو اپنے قابو میں کر لیا؟ اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ چند برسوں‌ کی بات نہیں بلکہ دہائیوں کا قصہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی معیشت، سماجی و معاشرتی ترقی، تعلیم، صنعت و حرفت میں بھارت سے آگے اور کئی شعبوں میں اس کا ہم پلہ تھا۔ ہماری کرنسی بھارتی روپے کے مقابلے میں دنیا میں معتبر سمجھی جاتی تھی۔ خلائی تحقیق کا ادارہ ’’سپارکو‘‘ تو بھارت سے 7 سال قبل 1961 میں پاکستان میں بن چکا تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ خلائی مشنز کے حوالے سے ہم بھارت سے پیچھے رہ گئے۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتی پالیسیاں تبدیل ہونے لگیں۔ عوام کے بجائے حکمراں اور اشرافیہ کے ذاتی مفادات غالب آتے گئے۔ اغیار کے مفادات کا تحفظ ہونے لگا اور سیاست پر مخصوص طبقے کا قبضہ ہونے کے بعد عوام کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوششوں نے ہمیں اس حال پر پہنچا دیا۔ آج ہم جس معاشی، سیاسی، معاشرتی ہیجان، تعلیم اور عوامی سہولتوں میں تنزلی کے جس موڑ پر کھڑے ہیں کیا اس کی ذمے داری بھارت پر عائد کی جاسکتی ہے؟

تاریخ کا غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس زمانے میں پاکستان کی ریاست امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر جوش وجذبے سے لڑ رہی تھی اسی دور میں انڈیا اپنی نوجوان نسل کے لیے ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایک تعلیمی پالیسی تشکیل دینے میں‌ مصروف تھا۔ اسی دور میں‌ انڈیا میں آئی ٹی کے شعبے میں انقلاب کی بنیاد رکھی گئی اور آج وہ دنیا بھر میں آئی ٹی انڈسٹری پر چھائے ہوئے ہیں۔

بھارت کی پاکستان دشمنی ایک حقیقت ہے۔ 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے والا بھارت آج بھی ہمارے ملک میں بدامنی پھیلانے اور دہشت گردی میں‌ ملوث ہے اور پاکستان کے خلاف سیاسی اور سفارتی سطح پر پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے، لیکن پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت اور مختلف فورم پر بھارت کی ان کارروائیوں کے ثبوت پیش کرنے کے بعد بھی دنیا اس پر کان کیوں نہیں دھر رہی اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

دنیا کا بھارت کے ہر منفی اقدام سے نظریں چرانے کی وجہ اس کی مضبوط معیشت اور دنیا میں اس کا بڑھتا اثر و رسوخ ہے۔ بھارت اپنی نئی نسل کو طب، سائنس، زراعت، صنعت و حرفت غرض ہر شعبہ ہائے حیات میں نئی دنیائیں مسخر کرنے کے لیے صلاحیتوں سے مالا مال کر رہا ہے اور دوسری جانب ہمارے سیاستدان اور اشرافیہ انہیں دلفریب نعروں سے مدہوش کیے دے رہے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد انہی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں تعلیم کی ترجیح کا حال یہ ہے کہ ہم اپنی جی ڈی پی کا لگ بھگ صرف 1.7 فیصد اس پر خرچ کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں‌ کا حال یہ ہے کہ دنیا کی ہزار بہترین جامعات میں پاکستان کی صرف چار یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ میں مسلمان قوم اس شعر کی جیتی جاگتی مثال بن چکی ہے:

حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا

حکومت اور سیاست کو چھوڑیں ہم تو انفرادی حیثیت میں بھی گراوٹ کا شکار ہیں، جو بھارت کو اپنا دشمن ملک مانتے ہیں لیکن بولی وڈ اسٹارز ہمارے آئیڈل ہیں اور ان کا فیشن اور ان کے انداز اپنانے میں شرم محسوس نہیں کرتے لیکن اسی ملک میں جب سائنس یا طب کے شعبے میں ترقی ہوتی ہے تو ہم اسے دشمن ملک کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ دشمنی کے جذبے کو ایک طرف رکھ کر ہم ایسی مثال بننے والے افراد کو اپنا آئیڈل بنا لیں؟

اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں بھارت سے مقابلہ تو جاری رکھنا ہوگا مگر ترجیحات تبدیل کر کے، اس مقابلے کو روایتی بیان بازی کے ساتھ اپنے قیمتی وقت، پیسے اور توانائی کے ضیاع کے بغیر خاص شعبے میں جاری رکھنا ہوگا اور یہ تعلیم کا شعبہ ہوسکتا ہے۔ اس میدان میں روایتی حریف کو پچھاڑنے کے لیے ہمیں عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے یہ کرلیا تو بھارت کیا دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

شاعرِ مشرق نے نوجوانوں کو اپنے اس شعر میں‌ جستجو اور لگن کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کا پیغام دیا تھا۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں