The news is by your side.

“غدر ٹو”: نفرت کی سیاست کامیاب!

جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے، سنی دیول کی “غدر ٹو” پربھاس کی فلم “باہو بلی” کا  510 کروڑ نیٹ کا ریکارڈ توڑ کر دھیرے دھیرے پٹھان کے ریکارڈ کی سمت پیش قدمی کر رہی ہوگی۔ بظاہر یہ ایک بڑی کامیابی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک المیہ ہے!

خیال رہے کہ شاہ رخ خان کی فلم “پٹھان” نے رواں برس کے آغاز میں ریکارڈ بزنس کرتے ہوئے بالی وڈ کے لیے پانچ سو کروڑ کلب کی بنیاد رکھی تھی، اس سے قبل اس کلب میں صرف ایک تیلگو فلم “باہو بلی” کا ہندی ڈب ورژن ہی موجود تھا۔ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید “پٹھان” کا یہ ریکارڈ ایک طویل عرصے قائم رہے، شاہ رخ خان ہی کی فلم “جوان” یا پھر سلمان خان کی اسپائی یونیورس میں شامل “ٹائیگر تھری” سے کچھ امید کی جارہی تھی، مگر پھر ایک ایسی فلم آئی، جس کے بزنس نے لوگوں کو ششدر کر دیا۔ اور یہ تھی سنی دیول کی “غدر ٹو”۔

ایسی فلم، جس کے ہیرو کو لگ بھگ ریٹائرڈ تصور کر لیا گیا تھا، جس کے کریڈٹ پر ڈیڑھ عشرے میں کوئی سپر ہٹ فلم نہیں تھی اور جس کی واپسی کی امید لوگ کھو چکے تھے۔ مگر سنی دیول نے ایک حیران کن کم بیک کیا۔ فقط ساٹھ کروڑ میں بننے والی فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔اگرچہ اس فلم کو اکشے کمار کی فلم “او مائی گاڈ ٹو” سے مقابلے کا سامنا تھا کہ دونوں فلمز ایک ساتھ ریلیز ہوئی تھیں، مگر اس باوجود یہ بلاک بسٹر ٹھہری۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے بزنس کا گراف پٹھان سے بھی بلند ہے۔ واضح رہے کہ یہ محض پچیس دن میں پانچ سو کروڑ کلب کا حصہ بن گئی تھی، جب کہ پٹھان کو یہ سنگ میل عبور کرنے میں اٹھائیس دن لگ گئے تھے۔

 ایک معنوں میں یہ سنیما انڈسٹری، اس سے وابستہ افراد کے لیے خوش آیند خبر ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سائوتھ سنیما کے بڑھتے اثرات، بڑے اسٹارز کی فلموں کی ناکامیوں اور کورونا بحران کی وجہ سے بالی وڈ کو شدید پریشانیوں کا سامنا تھا۔ بالخصوص 2020 اور 2021 کے سال خاصے خراب رہے۔ سال 2022 میں بھی سائوتھ سنیما کا پلڑا بھاری رہا۔ “کے جی ایف ٹو”، “آر آر آر” اور “پشپا” جیسی فلموں نے ہندی بیلٹ میں شان دار بزنس کیا۔ البتہ رواں برس کے آغاز میں “پٹھان” کی آمد کے بعد صورت حال بدلنے لگے۔ بعد میں چند فلموں نے قابل ذکر بزنس کیا، البتہ “غدر ٹو” نے پورا تصور ہی بدل دیا۔

البتہ اس معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ “غدر ٹو” کی کامیابی کی عمارت نفرت کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے، جس نے تمام سنگ میل پاکستان دشمنی اور پروپیگنڈے کے سہارے طے کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر اس سے پاکستان دشمنی اور پروپیگنڈا نکال دیا جائے، تو یہ ایک اوسط درجے کی فلم رہ جاتی اور شاید ہی ناظرین یوں جوق در جوق سنی دیول اور امیشا پٹیل کو دیکھنے سنیما جاتے۔ یہ فقط پاکستان مخالف جذبہ اور سستی دیش بھگتی تھی، جس نے ایک بلاک بسٹر سنی دیول اور فلم ڈائریکٹر، انیل شرما کی جھولی میں ڈال دی اور کم بجٹ کی، روایتی پروڈکشن کی حامل یہ فلم جست لگا کر پانچ سو کروڑ کلب میں جگہ بن گئی۔

خیال رہے کہ اس وقت انڈیا میں قوم پرست اور نسل پرست سیاست عروج پر ہے، نفرت کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔ ہندو اکثریت نے سماج میں مرکزیت اختیار کر لی ہے اور دیگر مذاہب کو دیس نکالا مل چکا ہے۔ اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ جارہے ہیں، انھیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ اس نفرت کا اصل نشانہ مسلمان بنے۔ یہ افسوس ناک سلسلہ بی جے پی کی سرکار آنے کے بعد حکومتی سرپرستی میں شروع ہوا، جس نے انڈیا کے سیکولر تشخص کو مسخ کرتے ہوئے ہر شعبے میں ہندوتوا کے پرچم لہرا دیے اور سماج سے برداشت کا خاتمہ ہوگیا۔

نفرت کی موجودہ لہر اتنی شدید ہے کہ بھارت کی سیکولر جماعتوں کو بھی چپ لگ گئی۔ ادیب اور فنکار بھی اس سے متاثر ہوئے۔ انڈیا کے ریجنل سنیما کے برعکس بالی وڈ کو اس نے براہ راست ضرب لگائی۔ اس پلیٹ فورم نے اس انتہاپسند سوچ کو نہ صرف اپنا لیا، بلکہ اپنا نمایاں ترین وصف بھی بنا لیا ہے اور “غدر ٹو” اسی سوچ کا تسلسل ہے۔

یاد رہے کہ غدر ٹو 22 سال قبل جون 2001ء میں ریلیز ہنے والی فلم ’غدر: ایک پریم کتھا‘ کا دوسرا حصہ ہے۔ اس وقت بھی ڈائریکٹر انیل شرما ہی تھے۔ اتفاق دیکھیں کہ جس طرح “غدر ٹو” اکشے کمار کی فلم “او مائی گاڈ ٹو” کے ساتھ ریلیز ہوئی ہے، ٹھیک ویسے ہی بائیس سال قبل “غدر” کا اولین حصہ عامر خان اور اشوتوش گواریکر کی فلم “لگان” کے ساتھ ریلیز ہوا تھا۔ تب بھی اس نے اپنے حریف کو شکست سے دور چار کیا تھا اور آج 2023 میں بھی اپنے حریف سے کئی گنا زیادہ بزنس کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ماضی کی طرح آج بھی نفرت کی سیاست انڈین ناظرین کا پسندیدہ موضوع ہے۔ یہ انتخاب اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ انڈین سیکولر ازم کا ڈھول پوری طرح پھٹ چکا ہے ۔

خیال رہے کہ غدر کا اولین حصہ سال 1947 اور بٹوارے، جب کہ دوسرا حصہ 1971 کا احاطہ کرتا ہے۔ دونوں ہی فلموں میں سنی دیول کو انسان کے روپ میں مافوق الفطرت قوت کا حامل ایک ناقابل شکست شخص دکھایا گیا ہے، جو مضحکہ خیز انداز میں جدید اسلحے سے لیس سیکڑوں افراد کو شکست دے دیتا ہے۔ بدترین پہلو یہ ہے کہ انڈین ناظرین اسی پر کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہیں۔ اس انتہاپسندی کو ہم “دی کشمیر فائلز” اور “کیرالا اسٹوری” جیسی پروپیگنڈا فلم کی کامیابی میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

“پٹھان” کی کامیابی نے بائیکاٹ گینگ اور مودی بھگتوں کو چپ کرایا دیا تھا، مگر “غدر ٹو” کے کامیابی کے بعد وہ ایک بار پھر جشن مناتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ساتھ ہی دیگر فن کاروں کی فلموں کے خلاف پروپیگنڈے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ کیا “غدر ٹو” کی کامیابی کے بعد سنی دیول ایک بار پھر مرکزی دھارے میں واپس آجائیں گے؟ یا پھر یہ بڑی کامیابی ان کے کیریر میں فقط پانی کا بلبلہ ثابت ہوگی؟

یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ البتہ یہ طے ہے کہ نفرت کی سیاست نے بالی وڈ کو پوری طرح یرغمال بنا لیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں