پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے نتیجے میں حکومت اور عوام کی توجہ موسمیاتی موافقت کے اہم چیلنج سے ہٹ گئی ہے۔ گزشتہ سال اگست کے سیلاب کے نتائج، نظر انداز ہونے والے اہم چیلنجوں میں سے ایک ہیں، جس نے پاکستان میں تقریباً 80 لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا۔ انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر نے سیلابوں کو 10 سالوں میں تباہی کی وجہ سے نقل مکانی کا دنیا کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا۔
لیکن اپریل 2022 میں، جب سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد ہار گئے، ملک نے پُر تشدد واقعات اور بھاری ریاستی کارروائی دیکھی ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کس طرح نومبر 2022 میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے حالات کے حوالے سے وقتاً فوقتاً سرکاری اپ ڈیٹس کا سلسلہ رک گیا، یہ حکومتی توجہ میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں بحالی کی کوششوں کے حوالے سے شفافیت کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ آبادی نظر انداز کر دی گئی ہے
فلڈ ریسپانس پلان کے طور پر، پاکستان نے ان سیلابوں سے بحالی میں مدد کے لئے 816 ملین امریکی ڈالر کی ضرورت کا اعلان کیا۔ تاہم، جولائی 2023 تک، اس منصوبے کا صرف 67.7 فیصد فنڈ کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید اثرات دیکھنے میں آئے ہیں، جس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک کی عدم تحفظ میں “خطرناک اضافہ” شامل ہے۔ 2023 کی ایک مشترکہ آؤٹ لک رپورٹ میں، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے “انتہائی تشویشناک” قرار دیا ہے، یہ نوٹ کرتے ہیں کہ ملک میں “لوگوں کی بڑی تعداد، انتہائی تشویشناک، شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والوں کی” ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں کھڑے پانی کے قریب رہنے والے لاکھوں بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بہت سے لوگ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
شدید گرمی اور آب و ہوا سے پیدا ہونے والے دیگر خطرات سر پر ہیں۔ لیکن خطرے کی گھنٹی بجنے اور فوری کارروائی کرنے کے بجائے، غلط ترجیحات کے بیچ پاکستان میں اقتدار کی کشمکش گورننس کو درہم برہم کر رہی ہے۔
خان کی پچھلی حکومت میں موسمیاتی ایکشن اہم پیغامات میں سے ایک تھا، جس میں بڑے پیمانے پر شجرکاری کے پروگرام جیسے اقدامات شامل تھے، اور جس کا آغاز خان کے آبائی صوبے خیبرپختونخوا سے ہوا اور پھر پورے ملک میں اسے پھیلایا گیا۔ موجودہ حکومت انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بہت زیادہ مرکوز ہے، لیکن موجودہ حالات میں کسی بھی مسئلے پر زیادہ عمل نظر نہیں آرہا ہے۔
بجٹ کے حوالے سے بری خبر
نئی حکومت کے 2023-2024 کے مالی بجٹ میں فوجی اخراجات میں 16 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، کلائمیٹ چینج ڈویژن کے بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 58 فیصد یعنی نصف سے زیادہ کمی کی گئی ہے۔ گزشتہ سال، ملک کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے لیے سیلاب سے نمٹنے کے لئے خصوصی فنڈنگ مختص کی گئی تھی۔ اس مالی سال میں، اسے ہٹا دیا گیا۔
مزید برآں، این ڈی ایم اے کی سالانہ فنڈنگ میں بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے، باوجود اس کے کہ اس نے 2022 کے سیلاب کے بعد متعدد محدودیت کی نشاندہی کی ہے۔ اس طرح کی محدودیت میں فلڈ ٹیلی میٹری کے جامع نظام، ویدر سٹیشنز، ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے عملے، خطرے اور خطرات کی تشخیص اور ہیوی ڈیوٹی ارتھ موورز کی کمی شامل ہے۔ ان میں سے ہر ایک قدرتی آفات کی ابتدائی علامات کی نگرانی اور فوری ردعمل کو نافذ کرنے کے لئے بہت اہم ہے، اس لئے پاکستان کا خطرہ برقرار ہے۔
بجٹ میں کٹوتیوں سے کچھ فطرت پر مبنی آب و ہوا کے اقدامات بھی متاثر ہوئے ہیں، جن کی سربراہی پچھلی حکومت نے کی تھی۔ مثال کے طور پر، 10 بلین ٹری سونامی جنگلات کا پروگرام اس سال 30 جون کو بغیر نئے مالی سال میں شامل ہوئے ختم ہو گیا۔ دوسری جگہوں پر، شمالی پاکستان میں گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ پروجیکٹ کی اسکیلنگ اپ (ایک سیلاب کے خطرے کو کم کرنے کا پروگرام جو یو این ڈویلپمنٹ پروگرام کی شراکت میں چلایا جاتا ہے) اس سال کے آخر میں ختم ہونے والا ہے، جس کی تجدید کا کوئی عندیہ نہیں ہے۔
کچھ امید تو ہے لیکن وقت کم ہے
تمام خبریں مایوس کن نہیں۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2022-2023 میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق باب میں، پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت (واش) جیسے شعبوں کے لئے 2018 کے بعد سے فنڈز میں اضافے مختص ہونے اور بہتر استعمال دکھاتا ہے۔ جب سروے جاری کیا گیا تب کلائمیٹ اڈیپٹیشن پلان پر کام چل رہا تھا، جسے 26 جولائی کو کابینہ کی منظوری مل گئی۔ پاکستان کا فلیگ شپ لیونگ انڈس انیشی ایٹو، جو ملک کے سب سے اہم دریا کے بیسن کا احاطہ کرتا ہے، قوی امکان ہے کہ یہ چین کے ساتھ پانی کے تحفظ، خشک سالی سے نجات اور دیگر پائیدار ترقی کے معاملات پر جون میں دستخط کیے گئے مفاہمت کی یادداشت سے مستفید ہوسکے گا۔
تاہم، پاکستان کے اس طرح کے اقدامات سے پوری طرح مستفید ہونے کے لئے، سیاسی جماعتوں کو قومی ترجیحات پر تعاون کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ کوپ 28 تک نصف سال سے بھی کم وقت ہے۔ اس سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ پاکستانی قیادت تمام سیاسی جماعتوں، یہ ثابت کرے کہ وہ کس طرح ان فرنٹ لائن کمیونٹیز بشمول سیلاب سے متاثرہ بے گھر افراد، کی حفاظت کر رہی ہے جو موسمیاتی بحران سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ صرف اس صورت میں جب سیاسی مخالفین پرامن اور مستحکم طریقے سے ملکی مسائل سے نمٹنا سیکھیں گے، تب پاکستان ان امیر ممالک سے آب و ہوا کے معاوضے کا حق بجانب مطالبہ کر سکتا ہے جو ترقی کے لئے آلودہ راستے پر گامزن ہیں۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نازش قریشی کی یہ تحریردی تھرڈ پول پر شائع ہوچکی ہے جسےیہاں پڑھا سکتا ہے