تحریر : محمد آفتاب احمد
نئی دہلی میں جی 20 سربراہ کانفرنس ختم ہوگئی۔ کانفرنس میں اتحادیوں نے جدید دور کا ’’اسپائس روٹ‘‘ منصوبہ پیش کیا ہے جو یورپ، مشرق وسطٰی اور انڈیا کو منسلک کرے گا۔ انہیں امید ہے اس سے چین کے بھاری منصوبے کے مقابلے میں توازن پیدا ہوگا۔ ماہرین جدید دور کے‘‘اسپائس روٹ‘‘ منصوبے کو بیلٹ اینڈ روڈ کا جواب قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے بیلٹ اینڈ روڈ پلان چین کے لیے’’ٹروجن ہارس‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ٹروجن ہارس آخر کیا ہے اور اس اصطلاح کو کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟
1184 قبل از مسیح میں (ترکیہ کے شہر کینا کلی کا نام ) ٹرائے ہوا کرتا تھا۔ ٹرائے یونانی سلطنت سے آزاد مملکت تھی۔ اسے فتح کرنے کے لیے یونانیوں نے ٹرائے پرحملہ کیا، حملے کا مقصد بادشاہ کی بے عزتی کا بدلہ لینا تھا۔ ٹرائے کا شہزادہ بادشاہ کی بیوی کو بھگا لے گیا تھا۔ یونانی فوج اپنے بحری جہازوں میں ٹرائے کے قریب اتری۔ یونانی فوج نے 10 سال تک اس شہر کا محاصرہ کیے رکھا لیکن وہ ٹرائے کو فتح کرنے میں ناکام رہی۔ کیونکہ یہ شہر ایک بہت مضبوط قلعے کے اندر محفوظ تھا۔
یونانیوں نے پھر صرف جسمانی قوت کے بجائے ذہنی قوت اور مکر و فریب کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ لکڑی کا ایک اتنا بڑا گھوڑا بنایا کہ اس کے پیٹ میں دس پندرہ سپاہی بیٹھ سکیں۔ اس میں ایک دروازہ ایسا بنایا جو صرف اندر سے کھل سکے اور آ نکھوں کے راستے جاسوسی کے لیے دو سپاہی بھی بٹھائے گئے۔ غرض یہ کہ یہ گھوڑا بنا کر اور اپنے سپاہی اس کے اندر بٹھا کر اسے قلعے کے دروازے کے باہر چھوڑ آئے۔ گھوڑے پر لکھا تھا: ’’ دیوی انتھینا کی نذر، یونانیوں کی محفوظ گھر واپسی کے لیے۔‘‘ اس کے بعد یونانیوں نے اپنے خیموں کو آگ لگا دی۔ ٹرائے والوں کو یقین ہوگیا کہ یونانی واپس جا رہے ہیں اور پھر انھیں یونانی فوج بھی نظر نہ آئی تو ٹرائے کے سپہ سالار، بادشاہ اور شہزادے باہر نکلےاور عوام کی خواہشات کے احترام میں کہ کہیں دیوی ناراض نہ ہو جائے اس گھوڑے کو اندر لے کرآنے کا فیصلہ کیا۔ ایک شہزادے نے اس بات کی مخالفت کی لیکن اسے جاہل کہہ کر چپ کرا دیا گیا۔ لکڑی کےگھوڑے کو اندر لایا گیا، اس کے گرد رات گئے تک جشن منایا گیا۔ ناچ گانا شراب۔ صبح کے قریب سب تھک کر سو گئے اور ان کی قسمت بھی۔
جب سارا شہر سو چکا تو یونانی جنگجو ٹروجن ہارس (لکڑی کے گھوڑے) سے باہرنکل آئے اور شہرکے دروازے کھول دیے۔ یونانی فوج واپس آئی۔ شہر کوتباہ و برباد کرنے کے بعد جلا ڈالا۔اب پورے ٹرائے پر یونانیوں کا قبضہ تھا۔’’ٹروجن ہارس‘‘ نے ناقابلِ شہر کو فتح کروایا۔ ٹروجن ہارس یعنی ایک پیچیدہ ہتھیار ڈالنے والا جس نے یونانیوں کو 10 سالہ ٹریجن جنگ کا خاتمہ کرنے مدد دی۔
تاریخ کے ماہرین ٹروجن ہارس کی حقیقت کو نہیں مانتے لیکن آج کی دنیا میں یہ ایک بڑی حقیقت ہے۔ برطانیہ نے 2015 میں برمنگھم کے قدامت پسند گروپ کی جانب سے ایک اسکول پر مبینہ قبضے کی سازش کو ’’ٹروجن ہارس‘‘ قرار دیا تھا۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں کسی کام کے ایپ یا سافٹ ویئر میں چھپا ہوا وائرس بھی ٹروجن ہارس ہے۔ جب ہم کام کی چیز سمجھ کر ایپ یا سافٹ ویئر کو ڈاؤن لوڈ یا اپ لوڈ کرتے ہیں تو وائرس بھی اندر آ جاتا ہے اور کمپیوٹر یا فون پر قبضہ کر لیتا ہے یا اس کا ڈیٹا چرا لیتا ہے یا کوئی اور گڑبڑ کرتا ہے۔ اسی طرح کتابوں میں، لوگوں کی خوبصورت باتوں میں، اور سائنس کی حقیقتوں کے درمیان ایک جھوٹ اور اشتہارات میں چھپے ہوئے پیغامات، یہ سب ٹروجن ہارس ہیں۔