The news is by your side.

نکاح آسان بنائیں

تیزی سے گزرتے وقت اور ڈھلتی جوانی کو مد نظر رکھتے ہوئے سرپرستوں کو بچوں کی جلدی اور وقت پر شادی کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ زندگی کا کچھ بھروسا نہیں‌. بہتر ہے کہ آپ اپنی ذمے داری سے سبک دوش ہوجائیں۔ اور جب بچے جوان ہوچکے ہیں‌تو دیر کس بات کی اور تاخیر کیوں ۔ لیکن اس پر جب بات ہو تو جواب ملتا ہے، یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ بڑے جھمیلے ہیں اور بہت کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔

آج ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں‌کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر شادی تاخیر سے کی جاتی ہے اور اس کا کیا حل ہے۔

شادی میں تاخیر کی پہلی وجہ مناسب رشتہ نہ ملنا ہے.بہتر سے بہتر رشتے کی تلاش سب کو ہوتی ہے اور یہ اچھی بات ہے۔لیکن اپنی خواہشات اور توقعات کو بھی ایک حد میں رکھنا چاہیے. رشتہ آپ کی سوچ کے عین مطابق نہیں، مگر کچھ کمی بیشی کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے تو پھر دیر نہیں‌کرنی چاہیے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسرا رشتہ نہیں ملے گا تاہم جو کام وقت پر ہو جائے وہ اچھا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ معمولی سی بات پر اچھے خاصے رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ فرض کریں‌کہ آپ کے پاس وقت کم ہو اور زندگی نے آپ کو اس موڑ پرلا کھڑا کیا ہو کہ آپ اپنی تکلیف بھول کر اپنی اولاد کے لیے فکرمند ہورہے ہوں. اس کی شادی کرناہی آپ کے لیے سب سے اہم اور زندگی کا بڑا کام ہو. اس وقت آپ یقیناً معمولی خصوصیات پر کوئی بھی رشتہ قبول کرلیں گے. مگر جب آپ کسی مشکل میں‌نہیں ہوتے اور �آپ کو لگتا ہے کہ ابھی بہت وقت ہے تو اکثر کیڑے نکالتے ہوئے رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے. جوان اولاد کا گھر بسانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ اور ضروری باتوں کو اہمیت دینے والی سوچ ہی مثبت پیش رفت ثابت ہوتی ہے۔

نکاح اور گھر بسانے یا رخصتی کے موقع پر دوسرا اہم مسئلہ اخراجات کا سامنے آتا ہے۔ اخراجات آپ کے اختیار میں ہیں۔ بڑھاتے جائیں تو بڑھتے جائیں گے اگر ہاتھ روک لیں تو بریک لگ جائے گی۔ دل تو بہت کچھ چاہتا ہے، حسرتیں بھی بہت ہوتی ہیں، ارمان ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے مگر ان کے ساتھ زندگی بھی الجھتی جائے گی۔ اس لیے خواہشات کو سمیٹتے ہوئےمیسر وسائل کے ساتھ حل نکالیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق جو ہے وہ دیں . کون کیا کہے گا یہ بات اہمیت نہیں‌رکھتی اور اس سے کوئی فرق نہیں‌پڑتا۔ فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ اگر آپ نے وقت پر شادی نہ کی اور آپ کی اولاد غلط راستے پر چل پڑی تو کیا ہوگیا اور اس کا ذمے دار کون ہوگا؟

ہم نے ولیمے کی کئی شان دار تقاریب دیکھیں، مگر یہ بھی دیکھا کہ لوگوں نے اعتراض ہی کیا۔ لوگ کب خوش ہونے والے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں لوگوں‌کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ باتیں لوگ بناتے رہیں گے. بریانی میں بوٹیاں تھیں یا نہیں، قورمے کاذائقہ کیسا تھا. میٹھے میں کھیر رکھی تھی یا زردہ …اعتراضات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ آپ کو فکر اپنے اخراجات کی کرنی ہے نہ کہ لوگوں کی باتوں اور دکھاوے کی۔

جہیز جیسی لعنت بھی آج بھی وقت پر شادی ہونے میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بیٹی کے جہیز کا سامان جوڑنے کی وجہ سے بعض اوقات کئی سال شادی کا معاملہ لٹکا رہتا ہے۔ جہیز آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ آپ پر لازم نہیں کہ گھر بھر کر دیں۔ جو ہے وہ دے دیں۔ ضرورت کا سامان بہت ہے۔ الیکٹرونکس سے لے کر فرنیچر تک بائیک سے لے گھر اور گاڑی تک یہ سب ایسی چیزیں ہیں جس کا انتظام مرد کی ذمے داری ہے. لڑکی کیوں ساتھ لائے؟ ایک مرد یعنی شوہر کیسے گوارا کرتا ہے کہ وہ اپنے پیسے کے پلنگ کے بجائے بیوی کے والدین کے دیے پلنگ پر سوئے۔ اس کو ملی گاڑی پر گھومے۔ ایک باضمیرمرد سے تو یہ سب نہیں ہو تا. اگر سسرالیوں کی پرزور فرمائش پر وہ لے بھی لے تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ خود اپنی کمائی سے بھی اپنی اور اپنی زوجہ کی سہولت اور خوشی کے لیے اس میں کچھ شامل کرلے اور یہ معاملہ یک طرفہ نہ رہے۔ خیر بات تھی جہیز کی تو بھئی یہ سب اپنی حیثیت کے مطابق کیجیے اور بعد میں اگر کچھ دینا ضروری ہو تو دیتے رہے، کونسا منع ہے۔

ایک اہم مسئلہ لڑکے کا اپنے قدموں پر کھڑے ہونا یا بیٹی کا تعلیم مکمل کرنا بھی ہے۔ یہ دونوں باتیں بہت اہم ہیں لیکن شادی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ ان دونوں معاملات میں درمیانی راہ نکالی جانی چاہیے۔ تعلیم کو ایک خاص مقام پر روک کر شادی کردی جائےاور بعد میں‌چاہیں تو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ اسی طرح لڑکے کو خاص عمر تک پہنچتے ہی یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اب اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائے، جب شادی کی عمر ہوگی تو وہ یقینا اس فریضے کو بخوبی سرانجام دینے کے لیے تیار ہوگا۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دال چینی کا کیا بھاؤ ہے اور کیسے ان کو پورا کیا جاتا ہے۔ اپنے بچوں کو پیراشوٹر مت بنائے کہ وہ دنیا کے لیے اجنبی ثابت ہوں۔ انھیں 15 سال کی عمر سے گھر کی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے تو 21 سال کی عمر میں وہ گھر چلانے کے قابل بن سکتے ہیں۔

دیکھا جائے تو 80 فیصد شادیوں میں رکاوٹ ہمارے بزرگ طبقے کی سوچ یا نظریات ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ درست اور دور اندیش ہوتے ہیں، تاہم بعض اوقات یہ دور اندیشی انا بن جاتی ہے۔ کچھ معاملات میں‌ان کی ‘میں’آڑے آجاتی ہے اور کچھ باتیں‌ان کی ناک کا مسئلہ بن جاتی ہیں۔ اس پر توجہ دینا چاہیے۔ آپ کی لچک سے اگر زندگیوں میں آسودگی آتی ہے، تو ممکن ہے بعد میں آپ کو بھی اعتراض نہ ہو۔ شادی کو آسان بنائیے ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دعوت گناہ اور سیاہ کاری ہر دوسرے لمحے میسر ہے۔ آپ کی اولاد اس طرف بھی جاسکتی ہے۔

یاد رکھیے شیطانی خیالات انسان پر حاوی ہوجاتے ہیں اور نوجوانی میں‌ان کا غلبہ رہتا ہے۔ بیٹا ہو یا بیٹی کسی بھی وقت کم زور لمحے کی گرفت میں‌آسکتے ہیں اور گناہ کی طرف ان کا مائل ہونا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔والدین کی تربیت پر شک نہیں کیا جاسکتا، مگرجس عمر میں‌جذبات اور خواہشات بہت ہوں،لغزش کا امکان بھی بہت زیادہ ہوتاہے۔

شادی میں رکاوٹ کی کئی دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ ان مسائل اور رکاوٹوں‌کو کیسےدورکیا جائے۔ ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ آپ نے اولاد کی شادی کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس کا راستہ بھی نکل آئے گا۔ اولاد کو بڑھتی ہوئی عمر یا ڈھلتی ہوئی جوانی کی وجہ سے پیدا ہونےوالے مسائل اور معاشرتی برائیوں سے بچانے کے لیے ان کی شادی وقت پر کریں.

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں