The news is by your side.

مذہب میں پابندیاں کیوں؟

دنیا کا کوئی بھی مذہب انسان کو آزادی کیوں نہیں دیتا؟ یہ سوال اسلام کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے۔

اسلام پابندیاں کیوں عاید کرتا ہے، اس بات کا جواب دینا اُس وقت مشکل ہوجاتا جب ایک ایسا شخص آپ کے سامنے ہو جو مذہب بیزار ہی نہ ہوبلکہ جسے زندگی کے ہر شعبہ اور ہر معاملہ میں حدود و قیود ناگوار گزرے اور وہ بحیثیت انسان مکمل آزادی پر یقین رکھتا ہو۔

اسلام اور بالخصوص دیگر آسمانی مذاہب کے حوالے سے یہ کوئی نیا سوال نہیں ہے اور اکثرہم ایسے مباحث سنتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی اسے سمجھناچاہے تو اس کے لیے اس کا بہت عالم فاضل ہونا ، یا فہم و فراست شرط نہیں بلکہ ایک خاص عمر میں کوئی انسان اپنے شعور اور علمِ بدیہی کے زور پربھی اطمینان بخش جواب پاسکتا ہے.ہم دیکھتے ہیں‌کہ اپنی تخلیق اور دنیا میں آمد کے بعد انسان نے سب سے پہلے اپنا پیٹ بھرنے اور بھوک مٹانے کے لیے ہاتھ پیر مارے۔ اس نے زمین پر ہر وہ چیز جو کھانے کے لائق تھی، اسے کھایا اور شکار کر کے اپنا پیٹ بھرنا شروع کردیا۔ پھر وہ باقاعدہ روزگار کی طرف متوجہ ہوا اور ایسے مواقع تلاش کیے جن سے بعد میں بتدریج دنیا نے ترقی کی۔ اس ترقی کی بنیاد بنا انسان کا پیٹ اور جب انسان نے اپنی ضروریات کو پہچانا اور ان کی تکمیل کا خواہاں ہوا تو اس کے لیے اس نے خود کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ضروری سمجھا۔ اس راستے میں کوئی ہدایت یا حکم آڑے نہ آیا، کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوئی۔ اس کے علاوہ انسان کی بنیادی ضرورت یعنی انس، لگاؤ اور باہمی محبت کے لیے بھی قدرت نے جنسی ہم آہنگی کی ضرورت کو پورا کیا گیا۔

اب اگر ہم غور کریں تو ہمیں یہ ماحول انسان دوست نظر آتا ہے۔ تو پھر رکاوٹیں اور پابندیاں کیوں عاید ہونے لگیں۔ وہ بھی ایسی پابندیاں جو دنیا کے معاملات میں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ ایک شخص سڑک کنارے کھڑے ہو کر کچھ بھی کرے اس سے کسی کو کیا فرق پڑنے لگا، لیکن کہا جانے لگا یہ درست نہیں، اسے روکنا ہوگا وغیرہ۔

تکنیکی طور پر اس کو یوں سمجھا جائے کہ انسان کی باڈی ایک مشین کی طرح ہے۔ جیسے ہر مشین بنانے والا بہتر جانتا ہے کہ اس کو کب تک چلانا چاہیے، کس موقع یا ضرورت پر اور کیسے حالات میں اسے استعمال کرنا ہے اور کب نہیں کرنا، یہ کچھ پابندیاں اور کچھ قواعد و ضوابط ہی ہیں۔ویسے ہی انسان کے جسم کے لیے کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔ اگر وہ ان پر عمل نہیں کرے گا تو مشین کی لائف کم ہوجائے گی اور وہ خراب ہوگی تو اس کی گارنٹی دینے والا بھی اسے واپس نہیں لے گا، کیوں کہ آپ نے اس کے بتائے ہوئے طریقۂ کار پر عمل ہی نہیں کیا۔

انسان کے لیے جو قواعد اور ضوابط طے کیے گئے ہیں، وہ اس کی بہتری کے لیے ہیں۔ جتنا عرصہ وہ یہاں گزارے گا، اچھا گزارے گا۔ اور جب وہ یہاں سے جائے گا تو آگے بھی اس کی گارنٹی دینے والا اسے قبول کرے گا اور اس کو بہتر جگہ فراہم کرے گا۔ اس بہتر جگہ کو جنّت اور ہر زبان میں اسی مفہوم میں کوئی نام دیا گیا۔

کوئی بھی انسان دنیاوی قوانین سے خود کو آزاد یا الگ نہیں رکھ سکتا۔ اسے ان پر عمل کرنا ہوگا، اگر وہ نہیں کرے گا تو کاروبارِ زندگی مفلوج ہوجائے گا . ایک معاشرہ توازن کھو بیٹھے کا اور وہاں ناحق خون بہے گا اور سب کچھ فنا ہوجائے گا. بالکل اسی طرح انسان کو تخلیق کرنے والا اس پر کچھ پابندیاں عاید کرتا ہے۔ انسان نامی اس مشین کو خود اس کے لیے اور اس جیسے دوسرے انسانوں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ مفید، کارآمد اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کرتا ہے۔ اگر وہ ان کا لحاظ نہ رکھے تو مشین میں کئی طرح کی خرابیاں رونما ہونے لگیں گی۔ پھر اس مشین کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا اثر بلواسطہ معاشرے پر پڑے گا۔ یوں پورا معاشرہ بگاڑ کی جانب جائے گا اور ایک وقت آئے گا جب پورا سسٹم بیٹھ جائے گا۔

یہاں ایک بات سوچنے کی یہ بھی ہے کہ کیا واقعی مذہب انسان پر پابندیاں عاید کرتا ہے؟ دیکھا جائے تو ایک مہذب معاشرے کے اصول و ضوابط پر من و عن عمل کرنے والے کے لیے وہاں کے اصول کبھی بھی پابندی محسوس نہیں ہوں گے۔ ایسے ہی اگر کوئی شخص کسی مذہب کا پیروکار ہے اور وہ اس کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل پیرا ہے تو اس کے لیے یہ کوئی پابندی نہیں بلکہ وہ اپنے اس طور طریقے پر عمل کرتا ہے جو اس کو بتایا گیا ہے۔دنیا میں بے شمار مرد اور عورتیں ان حدود و قیود کو قبول کرتے ہیں اور ان پر اپنی خوشی سے عمل کرتے ہیں۔ اس کے سبب ان میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس کا براہِ راست اور خوش گوار اثر ایک خاندان، ایک کنبے اور پھر معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ یہی معاشرے مل کر دنیا کو گہورارۂ امن اور خوش رنگ بناتے ہیں اور ہر طبقے کو اس کے وہ حقوق دینے کے قابل ہوجاتے ہیں‌جس میں ہماری انفرادی اور اجتماعی ترقی کا راز پوشیدہ ہے.

ایک خاتون جو گھر پر رہنے میں عافیت اور خوشی محسوس کرتی ہے وہ کبھی گھر سے غیر ضروری طور پر باہر نہیں نکلنا چاہے گی۔ تو یہ اس کے لیے کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں بلکہ اسی کی راحت کا باعث بن رہا ہے۔ یہ انسان کی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ کسی اصول، قانون، قاعدے کو جبر اور پابندی سمجھ کر الجھتا رہے یا اس میں خود کو زیادہ بہتر، محفوظ اور آزاد تصور کرے۔ احکاماتِ الٰہی پر عمل کرنے سے کوئی بھی خود کو زیادہ بہتر اور آزاد محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مذہب بیزار لوگ ایک خاص عمر میں اپنی نام نہاد آزادی کو تج کر عبادت گزار بن جاتے ہیں اور مذہبی حدود و قیود میں سرشاری اور لذّت محسوس کرنے لگتے ہیں۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پابندیاں اچھی ہوتی ہیں۔ اس سے انسان کو کئی چیزوں کی قدر ہوتی ہے۔ مذہبِ اسلام بھی اپنے پیروکاروں کو مختلف مفید اصول اور کارآمد قوانین کے تابع رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور ان ضابطوں کا پابند بناتا ہے جو ایک انسان کو اس کی معراج پر لے جاتے ہیں اور وہ عزّت اور وقار کا سبب بنتے ہیں اور وہ دنیا کی نظر میں معتبر ہوجاتا ہے۔

مذہب کی جانب سے انسان پر پابندیاں عاید کرنے کے سوال کا جواب اس مختصر بحث کے بعد یوں دیا جاسکتا ہے کہ احکامات اور ہدایات پابندیاں نہیں بلکہ ایک ضابطۂ حیات کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہیں تاکہ انسان خوش گوار اور خوب صورت زندگی بسر کرسکے اور معاشرے میں توازن قائم رہے۔ اس کے لیے ہمیں کچھ بندشوں کا لحاظ اور ممنوعات کا التزام کرنا ہوگا جس میں ایک بھرپور اور مکمل زندگی کا احساس پوشیدہ ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں