رمضان کا مہینہ تھا اور ہم سوسائٹی چھوڑ کر متوسط اور غریب لوگوں کے محلّے میں شفٹ ہوچکے تھے۔ پہلا دن سحری کا اہتمام ہم نے امیروں کے انداز میں کیا۔ مگر اس محلّے میں ہر طرف ایک خاموشی سی محسوس ہوئی۔ شب بیداری اور گھر اور گلی میں اضافی لائٹوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے، سائیکل دوڑاتے بچے، رات بھر گھروں سے جھانکتی روشنیاں اور چھتوں پر رونق کچھ نہیںدیکھا. اس محلّے میں نو ، دس بجتے ہی سناٹا چھا جاتا تھا۔ہمارے گھر جلتی بجھتی لائٹ کے علاوہ گلی سنسان ہوجاتی تھی۔ اس بند گلی میں آنے جانے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
پہلے روز سحری مکمل ہوئی اور پھر افطار کا وقت ہوگیا، آفس سے چھٹی کے بعد پہلی افطاری گھر پر کرنے کے خیال سے بہت کچھ جمع کرلیا تھا۔ یا یوں کہوں کافی کچھ تو غلط نہ ہوگا۔ بعد میں احساس ہوا تو اس میں سے کچھ پڑوس میں دے دیا۔ مگر ایک بات اور دیکھی کہ اس گلی میں کوئی کسی کے گھر کچھ دینے جارہا ہے نہ لینے، نہ کسی گھر سے پکوان کی کوئی خوشبو اٹھ رہی ہے کہ ماہِ رمضان کا وہ احساس ہو جو سوسائٹی میں رہتے ہوئے ہوتا تھا. وہ دن اسی طرحگزر گیا اور وہ بات نہ محسوس ہوئی جو امیروں کے محلے میں ہوا کرتی تھی۔
دو چاردن کے بعد اب اپنا بھی دل کچھ نہ کرنے جیسا ہوگیا۔ واجبی سی سحر و افطار کے ساتھ ہم نے رمضان گزار ہی دیا. پھر عید آگئی اور غریبوں کے اس محلے میں عید پر ایک نیا سوٹ بن جائے بس ‘عید’ ہوجاتی تھی، سو وہ بھی ایسے ہی ہوگئی۔
یوں پھر سال گزر گیا اور ایک بار پھر رمضان کی آمد تھی۔ اس مرتبہ بھی ہم غریبو ں کے محلے میں تھے۔ جیسے وہ ویسے ہم تھے۔ منہگائی بلکہ بےلگام اور بے قابو ہوتی ہوئی مہنگائی کی وجہ فروٹ بائیکاٹ کا شور ہونے لگا، مگر یہاں فرق نہیں پڑا. چکن کا بائیکاٹ ہوا یہاں جوں تک نہ رینگی. جیسے ان کے لیے یہ چیزیں کوئی وجود ہی نہیں رکھتیں. کھجوریں ایک بار لے لی جاتی ہیں، شربت بن ہی جاتا ہے، پکوڑے کوئی روک نہیں سکتا، آئل کا اضافی خرچ ہوجاتا ہے مگر وہ کیوں نہ ہو آخر کو رمضان ہے۔ ہاں کبھی کبھار کچھ جمع پونجی سے ایک دیگ چاول آجاتے ہیں وہ سب غریب محلے دار مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔
ہم ایک سوسائٹی سے اوسط اور کم آمدنی والوں کے محلے میں شفٹ کیا ہوئے زندگی آسان ہوگئی۔ کوئی غم نہیں رہا. سب کچھ اپنے جیسا لگنے لگا۔ اب تو کپڑے پرانے بھی نئے لگتے ہیں۔ استری نہ بھی ہوں تب بھی ان کی سلوٹیں محسوس ہی نہیں ہوتیں بلکہ چار لوگ پوچھتے ہیں کہاں سے لیے اتنے اچھے کپڑے۔
اور پھر رمضان آگیا کچھ دوستوں نے کہا بائیکاٹ مہم چلائیں تو میں نے کہا کس کے لیے؟ کہنے لگا امیروں کے لیے! کیوں کہ اس بار ان کو بھی اشیا مہنگی لگ رہی ہیں. اب ہم غریب محلے والے ان کو اس مہنگائی کے طوفان سے بچانے کے لیے مہم چلانے والے ہیں۔ فروٹ بائیکاٹ مہم، چکن بائیکاٹ مہم، یہاں تک کہ بڑے کے گوشت کی بائیکاٹ مہم۔ ہم لوگ امیروں کا ساتھ دیں گے تاکہ وہ اپنے اخراجات اور خواہشات پوری کرسکیں.اور ہمارا کیا ہے. ہم نے سبزی اس بارکچھ کم کردی ہے، سوچا ہے تین دالیں اور چنے ایک کلو اضافی کرلیں۔ آخر رمضان ہے اتنی عیاشی تو بنتی ہے۔