پاکستان کی سبکدوش ہونے والی حکومت نے اگست میں نگراں انتظامیہ کے آنے سے پہلے جو آخری کام کیا وہ ایک نیشنل ایڈاپٹیشن پلان (این اے پی) کی منظوری دینا تھا۔ یہ منصوبہ 26 جولائی 2023 کو اس وقت کی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے پیش کیا۔ منصوبہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کس طرح ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اداروں کی تشکیل اور ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتاہے۔
نیشنل ایڈاپٹیشن پلان (این اے پی) ایک موسمیاتی لچکدار پاکستان کا تصور رکھتا ہے جس میں آمدنی میں عدم مساوات اور سماجی تفاوت کو دور کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد گرین ملازمتیں؛ پائیدار بنیادی ڈھانچہ اور خدمات؛ ٹیکنالوجی اور جدت؛ اور حکومت، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے درمیان موثر تعاون فراہم کرکے؛ مقامی کمیونٹیز کی صلاحیت کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ خود کو اور اپنے ماحول کو خطرات سے محفوظ رکھ سکیں۔
یہ منصوبہ بڑی حد تک ان حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے غیر ملکی فنڈز کی دستیابی پر انحصار رکھتا ہے، لیکن دی تھرڈ پول کی جب ماہرین سے بات ہوئی تو ان کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر یہ بتانے میں ناکام ہے کہ فنانسنگ میکانزم کو کس طرح استعمال کیا جائے گا۔
بہرحال، منصوبہ پیش کرنے کا یہ مناسب وقت ہے۔ آب و ہوا کی سربراہی کانفرنس کوپ28 نومبر کے آخر میں دبئی میں شروع ہونے والی ہے، جہاں اپنے آب و ہوا کے وعدوں کو پورا کرنے میں پیشرفت کا گلوبل اسٹاک ٹیک پیش کیا جائے گا۔ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا کرنے والی کمیونٹیز کے لیے موافقت کی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومت کی ضروریات پر فعال طور پر غور کرے گا۔
دریں اثنا، پاکستان اب بھی، کسی حد تک، 2022 میں آنے والے بڑے سیلاب کے اثرات سے نمٹ رہا ہے۔ مصر میں کوپ 27 میں پاکستان کی قیادت کے لئے تباہی کی شدّت نے میں اہم کردار ادا کیا، اور ممکنہ طور پر لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ بنانے کے لئے سربراہی اجلاس کے معاہدے پر اثرانداز ہوا۔ یہ فنڈ، اگر فعال ہو جاتا ہے، تو اس کے ذریعے بین الاقوامی مالیات پاکستان کے این اے پی جیسے منصوبوں میں تعاون کرسکتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ منصوبہ کی بنیاد ناقص ہے اور اس میں ٹھوس اقدامات کا فقدان ہے
پاکستان منسٹری آف کلائمیٹ چینج اینڈ انوائرنمنٹل کوآرڈینیشن کے عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی تھرڈ پول کو بتایا کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ایک نیشنل اڈاپٹیشن پلان بنانے کا کام مکمّل ہوگیا ہے، جو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 3 ملین امریکی ڈالر کی گرانٹ سے ممکن ہوا ہے۔ پاکستان اب ان 40 ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے ایونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے تحت اپنی ذمہ داریوں کے طور پر ایک نیشنل اڈاپٹیشن پلان بنایا ہے۔
جرمن ریڈ کراس میں کام کرنے والی اسلام آباد میں مقیم موسمیاتی ماہر انعم زیب نے کہا، “اس منصوبے کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے یو این ایف سی سی سی کی فہرست میں سے ایک اہم مطالبے کو پورا کر دیا ہے۔”
تاہم، انکا کہنا ہے کہ منصوبے سے پاکستان میں اس بحث پر خاطرخواه پیشرفت نہیں ہوئی۔ زیب نے کہا کہ منصوبے کے بڑے حصے 2012 کے پاکستان نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی (این سی سی پی) سے “تقریبا مشابہ” ہیں؛ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ سے متعلق مواد تقریباً وہی ہے جو موجودہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان 2012-2022 میں ہے؛ اور یہ کہ پانی کے انتظام سے متعلق اقدامات اسی طرح کے ہیں جو 2018 میں نیشنل واٹر پالیسی میں تھے۔
لندن سکول آف اکنامکس جینڈر، جسٹس اینڈ سیکورٹی ہب میں ماہر تعمیرات اور شہری لچک کی ماہر صوبیہ کپاڈیہ نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ قومی موافقت کے منصوبے میں “واضح، قابل عمل حکمت عملی جو ہم آہنگی کے مسائل، صلاحیت کی تعمیر، وسائل کی تقسیم، کمیونٹی کی شمولیت کو حل کرتی ہے اور اور نظم و نسق کے لئے ایک موثر ڈیزاسٹر رسک منیجمنٹ سسٹم” کی بھی کمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ” صحیح وضاحت اور طریقہ کار کے بغیر نفاذ کے چیلنجز، خاص طور پر گورننس اور مالیات کے ارد گرد اس فریم ورک کو پچھلے سالوں میں جو کچھ کیا گیا اس سے مختلف نہیں بناتے”۔ کپاڈیہ کہتی ہیں کہ این اے پی نے بڑے پیمانے پر موجودہ ترقیاتی منصوبوں کو نظر انداز کیا ہے، جیسے کہ “پلاننگ کمیشن کا وژن 2030؛ یا سندھ حکومت کا وژن 2025 یا سالانہ ترقیاتی منصوبے جو مالی سال کے بجٹ سے منسلک ہیں۔” یہ ترقیاتی منصوبے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ریاست کس طرح فنڈز اور وسائل مختص کرتی ہے، اور این اے پی کی کامیابی کےلئے، انہوں نے کہا، ” ضروری ہے کہ یہ ترقیاتی منصوبوں کا حصّہ بنے یا ان پر بات چیت کی قیادت کرے۔”
ملک امین اسلم، جو اگست 2018 سے اپریل 2022 تک وزیرِ اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی تھے، نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس منصوبے میں ” عمومیت سے ہٹ کر سوچ” کا فقدان ہے، اور یہ “موجودہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی موسمیاتی فنانسنگ فریم ورک ” سے فائدہ اٹھانے کے لئے کشمکش میں رہے گا۔
اسلم نے دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے تحت اپنے دور میں، ریاست نے 10 بلین ٹری سونامی اور پاکستان پروٹیکٹڈ ایریاز انیشی ایٹو جیسے فطرت پر مبنی حل (این بی ایس) پر توجہ مرکوز کرکے “عطیہ دہندگان سے ایک پیسہ لئے بغیر” موسمیاتی بحران کا مقابلہ کیا۔ این اے پی میں نمایاں طور پر موجود فطرت پر مبنی حل کے باوجود، جس میں سے ایک اس کے 10 رہنما اصولوں میں شامل ہے، اسلم کا کہنا ہے کہ 2022 میں ” سیاسی مصلحت کی قربان گاہ” پر پی ٹی آئی کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اس طریقہ کار کو ترک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ماحولیات کے سابقہ ماہر ضیاء الاسلام نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ توجہ ” این اے پی میں این بی ایس سے ہٹ کر قرض دوست منصوبوں کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔”
مشاورت کی کمی کی وجہ سے منصوبہ پر تنقید
تخلیق کا عمل کسی بھی منصوبے کے مواد کو تشکیل دیتا ہے، اور یہی پاکستان کے موسمیاتی ماہرین کی جانب سے نیشنل اڈاپٹیشن پلان پر تنقید کی سب سے بڑی وجہ رہا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف – پاکستان کے ساتھ کام کرنے والے عمران خالد نے این اے پی کو حتمی شکل دینے میں ورلڈ بینک کے کنسلٹنٹس کے کردار پر تشویش کا اظہار کیا، جس کا تعارف میں نمایاں طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ “فی الحال، ہم کنسلٹنٹس کی زیرقیادت اقدامات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں،” انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا، اور یہ کہ “ممکنہ طور پر یہ خطرے سے دوچار کمیونٹیز کو درپیش ماحولیاتی اور آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹ نہیں سکتے”۔
منسٹری آف کلائمیٹ چینج اینڈ انوائرنمنٹل کوآرڈینیشن کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کو مسترد کر دیا۔ “ہم نے ابواب کے لئے ڈیٹا اور تمام مواد فراہم کیا، ورلڈ بینک نے اسے ایک مناسب شکل دی تاکہ اسے یو این ایف سی سی سی میں جمع کیا جا سکے۔”
خالد نے یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ یہ منصوبہ، “بنیادی” ہونے کے باوجود، ایک ایسے عمل کے ذریعے بنایا گیا تھا جو ‘پورے معاشرے’ کے نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتا جس کا عندیہ دستاویز میں دیا گیا۔ انہوں نے کہا، “اس طرح کی اہم دستاویز کو حتمی شکل دینے سے پہلے وسیع البنیاد مشاورتی عمل جیسے تجربہ کار پیشہ ور افراد، کمیونٹیز، ماہرین تعلیم، اور وسیع تر سول سوسائٹی سے بصیرت حاصل کرنا، غائب ہے۔”
خالد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ ‘باٹم اپ’ اپروچ کی زیادہ ضرورت تھی، رافع عالم، ایک ماحولیاتی وکیل نے دی تھرڈ پول کو بتایا، “ایک مثالی دنیا میں ‘قومی’ موافقت کے منصوبے کی تیاری اعلیٰ سطح یعنی فیڈریشن کے بجاۓ نچلی سطح یعنی صوبوں سے ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے وضاحت کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ این اے پی میں جن اہم شعبوں کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی آبپاشی، زراعت، زمین اور واٹرشیڈ مینجمنٹ، پاکستانی آئین کے تحت صوبائی حکومت کے معاملات ہیں۔
عالم نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ صوبوں نے اس منصوبے کے تحت انہیں تفویض کردہ ذمہ داریوں، جیسے کہ فنڈنگ فراہم کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا،”جہاں تک میرے علم میں ہے، ایسا نہیں ہوا، ” انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی موافقت کے اقدامات کی فنڈنگ کے لئے بجٹ کی منظوری درکار ہوتی ہے جس کی منظوری صوبائی اسمبلیاں دیتی ہیں۔ “چونکہ ایسا بھی نہیں ہوا ہے، اور این اے پی بنیادی طور پر مہنگے موافقت کے اقدامات کی مالی ذمہ داری ان صوبوں کو دے رہا ہے جنہوں نے اپنے لئے بجٹ الاؤنسز نہیں بنائے ہیں۔”
زیب نے استدلال کیا کہ جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ سیاسی عہد ہے، یہ نہیں کہ ” پالیسیاں یا منصوبے تحریری طور پر کتنے اچھے ہو سکتے ہیں”۔ زیب نے کہا کہ صوبائی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیاں، جیسے کہ سندھ اور خیبرپختونخوا صوبوں کی، متعلقہ اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل جولائی 2022 میں عجلت میں منظور کئے جانے کے بعد لاگو نہیں کی گئیں۔
کراچی میں مقیم زراعت اور آبی وسائل کے ایک ماہر عمر کریم نے اتفاق کیا: “ہمارے پاس اچھی دستاویزات لکھنے اور پھر انہیں بالاۓ طاق رکھ دینے کا رواج ہے۔ امید کرتے ہیں کہ اس بار کچھ مختلف ہوگا۔”
کریم نے نیشنل اڈاپٹیشن پلان میں نکاسی آب کا ذکر بطور ایک اور قابل ذکر کوتاہی کے کیا۔ “ہماری زراعت اور خوراک کا پورا نظام صرف اس صورت میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سیلاب سے بچ سکتا ہے جب ہمارے پاس طوفانی پانی کے اخراج کے نظام کو موثر اور باقاعدگی سے برقرار ہو۔” انہوں نے دلیل دی کہ اس مسئلے سے نظر چرانا ماحولیات کے لئے اضافی مسائل پیدا کرتا ہے، کیونکہ سکھر اور روہڑی جیسے شہروں سے دریائے سندھ میں خارج ہونے والا پانی انڈس ریور ڈولفن کے مسکن کو آلودہ کرتا ہے، جب کہ لاہور سے آنے والا سیوریج دریائے راوی میں چھوڑا جاتا ہے، جو کہ جب ستلج تک پہنچتا ہے تو پینے اور زرعی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
مالیات کے سوالات
نیشنل اڈاپٹیشن پلان میں موافقت کے منصوبوں کے لئے ابتدائی مالی اعانت فراہم کرنے کے لئے ایک نیشنل کلائمیٹ چینج فنڈ (این سی سی ایف) کے قیام کا ذکر ہے۔ زیب نے کہا، “یہ کیسے دستیاب ہوگا اور اس کو کس طرح ڈیزائن کیا جائے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ مقامی سطح تک پہنچ جائے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ہم نہیں جانتے۔”
ضیاء الاسلام نے کہا کہ صوبائی سطح پر متعلقہ اداروں کی صلاحیت محدود ہے، “لاجسٹکس اور تکنیکی سمجھ بوجھ، خاص طور پر فنانسنگ کے لحاظ سے”۔
موسمیاتی مالیات کی ماہر کشمالہ کاکاخیل نے دلیل دی کہ پاکستان کے نیشنل اڈاپٹیشن پلان کو نافذ کرنے میں سب سے بڑا چیلنج موجودہ طریقوں کو بہتر بنانے کے بجائے فنانسنگ میں کم ہے۔ “ہمارے پاس ایک مناسب اندازہ ہے کہ کون سے جغرافیے اور شعبے موسمیاتی اثرات کا زیادہ شکار ہیں؛ صوبوں کے منصوبہ بندی کے محکموں کو منصوبے ڈیزائن اور منظور کرنے کی ذمہ داری لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں صرف بین الاقوامی امداد کا انتظار کرنے کے بجائے سمجھداری سے اپنا پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے”
ذوفین ابراہیم کی یہ تحریر دی تھرڈ پول پر شایع ہوچکی ہے جس کی مترجم ناہید اسرار ہیں.