ہمارا ربّ دلوں کے بھید جانتا ہے. وہ ہماری سرگوشی بھی سُن لیتا ہے. وہ ہماری التجا، گریہ اور دعا سنتا اور قبول کرتا ہے اور اس کے لیےتخصیص نہیں کہ کوئی زاہد وعابد ہو یا ایسا شخص جس سے کوئی گناہ یا خطا نہ ہوئی ہو . وہ خطار کاروں کی بھی فریاد سنتا ہے اورندامت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تڑپ کو قبول فرماتا ہے۔ دعا اللہ کی طرف سے ہر خاص و عام، بڑے چھوٹے کے لیے گویا ایک انمول تحفہ اور عبادت کی ایک شکل ہے.
انبیائے کرام اور اللہ کے متقی بندوں کے اوصافِ حمیدہ اورسیرت کا مطالعہ کریںتو معلوم ہوگا کہ دعااس میں ممتاز وصف ہے.سَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہ فَانَّہ یُحِبُّ أنْ یُسْأَلَ (اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ خود سے مانگنے کو پسند کرتاہے ). بلاشبہ دعا اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کے لحاظ سے مومن کو عافیت اور عزّت سے ہمکنار کرتی ہے.اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا : وَإذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإنِّي قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ(جب میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں ، تو میں قریب ہوں ، دعا کرنے والاجب مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ). دعا کا تصور قدیم ترین ہے. ہم جانتے ہیںکہ دنیا کے تمام مذاہب میں عبادات کے طریقے تو مختلف ہیں، لیکن ایک قدرِ مشترک صرف دُعا ہے۔ اسلام کا امتیاز اوردین کی خوبی یہ ہے کہ اللہ اور پیغمر نے قرآن و حدیث میں دعا کی فضیلت بیان کرتے ہوئے مسلمانوںکو اس جانب متوجہ کیا ہے. نامساعد حالات، کسی مشکل اور کڑے موقع پر ایک مسلمان دُعا کی شکل میں اپنی ہمّت بڑھاتا ہے، حوصلہ اور سکون پاتا ہے اور امید کی کرن ہمیشہ اس کا احاطہ کیے رہتی ہے.
دعا کا حیاتِ انسانی سے گہرا تعلق ہے جس کے ہمہ گیر اثرات کا انکار کوئی نہیںکرسکتا. لیکن ربِ کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ جس طرحبندہ مشکل میں اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے اور التجا کرتا ہے کہ اس کی منشا اور حاجت پوری ہو، اسی طرح آسودگی اور خوش حالی کےدنوں میںوہ اللہ تعالی کی نعمتوںکا شکر بھی ادا کرے اور ہر جائز کام اور طلب کے لیے دعا گورہے. اسی طرح فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی اور غفلت نہ برتے بلکہ اللہ سے توفیق طلب کرے ،اپنے دین پر قائم رہنے اور بھلائی کرتے رہنے کی دعا کرے.
اسلامی احکامات اور دینی تعلیمات پر مبنی کتب میں دعا کی اہمیت اور فضیلت کے ساتھ دعا کرنے کے آداب بھی بیان کیے گئے ہیں. علماء فرماتے ہیں کہ مسلمان کو چاہیےکہ جس طرحوہ مشکل اور تنگی وافتاد ٹوٹنے پر اللہ کے حضور گڑگڑا تا ہے اور نجات طلب کرتا ہے، اسی طرحخوش حالی کے دنوںمیں بھی اللہ تعالی کے آگے ہاتھ پھیلائے اور شکر ادا کرے.ہمیں اپنی آسانیوں، جائز خواہشات کے علاوہ اپنی جان و مال اور عزت و وقار کی دعا بھی کرنا چاہیے. مسلمان کو کامل یقین رکھنا چاہیےکہ اللہ تعالیٰ دونوں حالتوں میں پکارنے والےپر خاص نظر کرتا ہے اور اس کو خزانۂ غیب سے نوازتا ہے . اس کی مثال حضرت یونس علیہ السلام ہیں جو ہمہ وقت اللہ کی حمد و ثناء میں مشغول رہتے تھے اور اس کی تسبیح کرتے تھے، ایک موقع پر وہ مچھلی کے پیٹ میں بند ہوگئےتو اس حالت میں اللہ تعالیٰ کو یادکیا اور خدائے بزرگ و برتر نے اس مشکل سے نجات کا سامان کیا.
یقیناً دُعا مومن کا ہتھیار ہے اور اسے عبادت کا مغز قرار دیا گیاہےجس کی قبولیت کےمختلف انداز ہیں . کبھی بعینہ وہی مل جائے جو طلب کیا گیا ہو، یا اس سے بہتر اورنعم البدل رب کی ذات عطا کردے، کیوں کہ اللہ تعالی کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں اورکبھی وہ ہماری دعاؤں کو بطور توشۂ آخرت بھی محفوظ کردیتا ہے. دعا کی قبولیت کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور تقوی وپرہیزگاری کو اپنائے۔
بے شک اللہ تعالیٰ ہی حقیقی معبود ہے اور حاجت روا ہے. اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں کہ وہ بہت نوازنے والا اورخوب خوب عطا کرنے والا ہے۔