پاکستان کی زراعت میں پولٹری فارمنگ انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے، جو ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس صنعت میں ایک اہم مسئلہ پولٹری لیٹر کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونا ہے۔ غلط طریقے سے لیٹر کا انتظام نہ صرف پرندوں کی صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی خطرہ ہے، جس سے کسانوں کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پولٹری لیٹر دراصل وہ بستر ہوتا ہے جو مرغیوں کے شیڈ میں بچھایا جاتا ہے، جو عام طور پر برادہ، چاول کے چھلکے یا لکڑی کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے اور نمی اور فضلہ کو جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بستر مرغیوں کی بیٹ، پر اور دیگر گندگی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اگر اس کا صحیح طریقے سے انتظام نہ کیا جائے تو یہ بیماریوں اور بیکٹیریا کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے، جو کہ کوکسڈائیوسس اور سانس کی بیماریوں جیسے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ناقص لیٹر مینجمنٹ سے امونیا کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، جو پرندوں کی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے اور پیداوار میں کمی اور اموات کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان کے پولٹری شعبے، خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو لیٹر کے درست انتظام میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر کسان لیٹر مینجمنٹ کے جدید طریقوں سے ناواقف ہیں اور روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں، جو جدید اصولوں یا صحت کے خطرات کو مدِنظر نہیں رکھتے۔ مزید یہ کہ وسائل کی کمی بھی چھوٹے کسانوں کے لیے جدید سامان اور مواد تک رسائی کو مشکل بنا دیتی ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں موسمی حالات بھی لیٹر مینجمنٹ کے مسائل کو بڑھا دیتے ہیں۔ گرم اور مرطوب علاقوں میں نمی کا اضافہ لیٹر میں بیکٹیریا کے پھیلاؤ کو تیز کرتا ہے، جس سے امونیا کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسے میں لیٹر کی دیکھ بھال مسلسل نگرانی کے بغیر مشکل ہو جاتی ہے۔
پولٹری لیٹر کا نامناسب طریقے سے ضائع ہونا ماحولیاتی مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔ پولٹری فضلے میں موجود نائٹروجن اور فاسفورس پانی کے ذخائر میں شامل ہو کر آلودگی اور یوتروفیکیشن کا باعث بنتے ہیں، جو آبی حیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پولٹری لیٹر کے انتظام میں بہتر طریقے اپنائے جائیں تاکہ ماحولیاتی نقصان سے بچا جا سکے۔
ان مسائل کے باوجود، ایسے طریقے موجود ہیں جن سے کسان لیٹر کا بہتر انتظام کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلا قدم مناسب بستر کے مواد کا انتخاب ہے، جیسے چاول کا چھلکا یا برادہ، جو نمی کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ لیٹر کو باقاعدگی سے پلٹنا، شیڈ میں مناسب ہوا کی فراہمی اور لیٹر کی مناسب گہرائی کو برقرار رکھنا بھی امونیا اور بیکٹیریا کی نشوونما کو روکنے میں مدد دیتا ہے۔ کچھ کسان امونیا کی سطح کو کم کرنے کے لیے کیمیکل یا حیاتیاتی ایجنٹس کا بھی استعمال کر رہے ہیں، جس سے شیڈ کی ہوا کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، پولٹری لیٹر کو کھاد میں تبدیل کرنا ایک پائیدار حل ہو سکتا ہے، جو فضلے کو غذائیت سے بھرپور نامیاتی کھاد میں تبدیل کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہوتی ہے بلکہ کسانوں کو اضافی آمدنی کا ذریعہ بھی ملتا ہے۔
حکومت اور زرعی تحقیقی ادارے پولٹری لیٹر مینجمنٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ کسانوں کی تربیت کے لیے پروگرامز، جدید آلات کی فراہمی، اور بہتر مواد کے لیے سبسڈیز متعارف کرائی جا رہی ہیں، تاکہ کسانوں میں شعور اجاگر ہو اور وہ جدید طریقے اپنائیں۔ پاکستان کی زرعی اور لائیو سٹاک یونیورسٹیاں بھی اس مسئلے پر تحقیق کر رہی ہیں اور خودکار لیٹر مینجمنٹ سسٹمز جیسی جدید ٹیکنالوجیز پر کام کر رہی ہیں، جو مستقبل میں پولٹری انڈسٹری میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔
مجموعی طور پر، پولٹری لیٹر مینجمنٹ کو بہتر بنانا پاکستان کی پولٹری صنعت کی پائیداری اور ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ بہتر تکنیکوں کو اپناکر اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، کسان اپنے فارم کے پرندوں کی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں، ماحولیاتی نقصان سے بچ سکتے ہیں، اور ساتھ ہی اپنی آمدنی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔