The news is by your side.

پروین شاکر: زندگی کی تلخیوں سے “خود کلامی” کرتے ہوئے موت کا سامنا کرنے تک

رومانوی شاعری اور عورت کی زندگی کے المیوں، دکھوں اور کرب کو اپنے اشعار میں سمیٹ کرمقبولیت حاصل کرنے والی پروین شاکر ایسی شاعرہ تھیں جن کی ذاتی زندگی بھی تلخیوں اور رنجشوں کے سبب بے رنگ اور یاسیت کا شکارہوئی. شوہر سے علیحدگی کے بعد ان کی کل کائنات اکلوتا بیٹامراد تھا. نوجوانی میں گھر ٹوٹنے کے بعدانھوں نے اپنی زندگی کا مشکل وقت دیکھا، لیکن بیٹے کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے خود کو شعرو شاعری ادبی سرگرمیوں میں گم کرلیا. پروین شاکر کی موت حادثاتی تھی اوروہ عین جوانی میں یہ دنیا چھوڑ گئیں.

یہاں ہم پروین شاکر کی تین مشہور غزلوں کے ساتھ ان کے مختصر حالات زندگی پیش کررہے ہیں.

حادثہ اور ماہِ تمام
پروین شاکر اسلام آباد میں صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ایک ٹریفک سگنل پر ان کی کار موڑ کاٹتے ہوئے کسی تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ شدید زخمی پروین شاکر کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔یہ 26 دسمبر 1994ء کی بات ہے. انھیں اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان میں دفن کیا گیا۔

پیدائش
شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں.ان کے والد سید ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کر تے تھے۔اسی نام کو پروین نے اپنایا اور پروین شاکر مشہور ہوئیں۔وہ ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ زمانہ طالبعلمی میں مباحث میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ کم عمر تھیں جب شعر گوئی کا آغاز کیا اور جلد ہی ملک بھر میں‌پہچانی جانے لگیں۔

تعلیم
پاکستان کی اس مقبول شاعرہ پروین شاکر نے انگریزی ادب اور لسانیات میں گریجویشن کی. بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طورپر خدمات انجام دیں۔1990ء میں ٹرینٹی کالج (جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا) سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

شادی اور علیحدگی
1976ء میں پروین شاکر کی شادی ان کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی. وہ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے. پروین شاکر ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ 1987ء میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

خاندان
پروین شاکر کی والدہ کا نام افضل النساء تھا ۔ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے.پروین شاکر کاخاندان ہندوستان کے صوبہ بہار کے ایک گاؤں چندی پٹی سے تعلق رکھتا تھا ۔ پروین شاکر اور ان کی بڑی بہن نسرین بانو نے بچپن ایک ساتھ گزارا ۔پروین شاکر ایک ذہین اور خوبصورت خاتون تھیں جنھیں معاشرے کے رویے اور گھٹن کا شکار ہونے کے بعد شادی ختم ہونے سے بھی شدید رنج ہوا. ایک حساس طبع اور شاعرہ نے خود کو سمیٹنے کی کوشش کے ساتھ خود کو منوانے کے لیے بہت جد و جہدکی. یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عورتوں کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے ۔

شاعری اور ادبی سفر
پروین شاکر کاپہلا مجموعہ خوشبو جب شائع ہوا اس وقت پروین شاکر کی عمر صرف 24برس تھی ۔اس مجموعہ کوملک گیر پذیرائی ملی اور پروین شاکر کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی.پروین شاکر کی شاعری کی تعریف اس دور کے مشہور شعرا ء نے کی.احمد ندیم قاسمی ،فراز احمد فراز ، علی سردار جعفری وغیرہ اس کے علاوہ پروین شاکر کو پانچ بڑے ادبی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا . ان کے شعری مجموعے میں سے1980 ء میں صد برگ ،1990ء میں خود کلامی ، 1990ء میں ہی انکار اور 1994ء میں ماہ تمام، کلیات شائع ہوئے.

پروین شاکر کی وہ تین غزلیں‌جو بہت مشہور ہیں اور آج بھی باذوق قارئین انھیں پڑھنا پسند کرتے ہیں.

غزل
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی
……..
غزل
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
…….
غزل
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

+ posts
شاید آپ یہ بھی پسند کریں