حمیرا جمیل
یہ کیسے ممکن ہےکہ زندگی بوجھ محسوس ہو. زندگی تو خوشی اور غم کامجموعہ ہے مگر اپنی ہی جان کا دشمن بن جانا اورزندگی کے معاملات میں الجھ کر خود کو فراموش کردینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ یقین نہیں آتا کہ خاک کا جسم خود سے اس قدربیزاربھی ہوسکتا ہے. مر دِ مجاہد بن کر زندگی گزارنے والے پلک جھپکتے ہی موت کو گلے لگا لیتے ہیں.
دوسری طرف بحیثیت انسان کسی کی موت پرقیاس آرائی، تبصرہ کرنا بے حد آسان کام ہے. شاید آج بہت آسان ہوگیا ہے.”اس میں عقل تو برائے نام تھی.” ” بری صحبت کا نتیجہ ہے.” یہ جملے بازیاں کس قدر اذیت ناک ہیں. مہذب معاشرے کا راگ الاپنے والے اپنے جیسوں کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں. ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے اور آج بھی ہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکےہیں. مرزا غالب نے کہا تھا:
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اردو زبان کے نامور شعراء اور ادیب خودکشی کی جانب مائل ہوئے. خود مائل ہوئے یا پھر معاشرے کی بے حسی اور ستم ظریفی نے مجبور کیا.حالات جیسے بھی تھے کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں؟ ایک بظاہرخوش باش اور مطمئن انسان زندگی کی بازی ہار جائے. اندرونی طور پر وہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہو لیکن دنیا داری کے لیے جھوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجائے رکھے. ایک ہی شعبہ سے تعلق رکھنے والے رقابت پر اتر آتے ہیں. جنازے پرکھڑے ہو کر آنسو بہانا اور بناوٹی باتیں کرنا کہ میں تمہارا ہمدرد بن سکتا تھا.تم مجھے راز داں بنالیتے، تم مجھ سے دل کی بات کہتے، یہ تم نے کردیا؟ اس طرح کی باتوں پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے.
شکیب جلالی، مصطفی زیدی، سارا شگفتہ، سید آنس معین اور ثروت حسین سے کون واقف نہیں؟ یہ اردو شاعری کے وہ نام ہیں جو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور اچانک اپنی زندگی کاخاتمہ کرلیا. میراخیال ہے پردہ ڈالنے سے حقائق نہیں چھپ سکتے. کچھ کمی، کوتاہی تو کہیں ضرور ہوئی ہے ورنہ یوں زندگی سے بیزار اور سماج سےبد ظن ہوجانا، ذہن کا اسے قبول کرنا مشکل ہے.شکیب جلالی کی موت یا خودکشی کے بعد جو ردعمل سامنے آیا وہ قابل تشویش تھا. یہی کہا جاسکتا ہے کہ شکیب جلالی گھر کے ماحول سے بیزار ہو کر زندگی کوخیرباد کہہ گئے.مصطفی زیدی کا ذکرکریں تو معلوم ہوگا کہ ان کا قتل نہیں ہوا بلکہ انہوں نے خودکشی کی. سارا شگفتہ کا نام بھی اس حوالے سے اہم ہے. کیونکہ ازدواجی زندگی میں ناکامی اور مشکلات خودکشی کا سبب بنیں.سید آنس معین کا کم عمری میں خودکشی کا انتخاب سمجھ سے بالاتر ہے مگر سچ یہی ہے. لاحاصل محبت یا پھر بینک میں خورد برد کے معاملے میں ملوث کرکے بے عزت کرنے کوشش. ثروت حسین کا نام تعارف کا محتاج نہیں. ثروت حسین کی شاعری میں خودکشی کے رجحانات واضح دکھائی دیتے ہیں.
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
ثروت حسین کی ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کی دوسری کوشش. پہلی مرتبہ تو کامیابی نہیں مل سکی تھی.مگر دوسری کوشش کامیاب ہوگئی. اپنی شاعری کی ناقدری یا پھر تنہائی نے اردو شاعری کو اس شاعر سے محروم کردیا. یہ اردو ادب کے چند مشہور نام ہیں. ان کے علاوہ بھی کئی غیر معروف یا گمنام شعرا نے خودکشی کی ہوگی جن کا مجھے علم نہیں. میں سمجھتی ہوں کہ کسی انسان کو خودکشی کی طرف راغب کرنے میں گھر کا ماحول ہی نہیں بلکہ باہر کی دنیایعنی معاشرہ بھی کردار ادا کرتاہے. شرم کی بات ہے کہ ان خود کشی کرنے والوں کے خونی رشتے بھی اجنبی ٹھہرے اور دوست بھی بیگانےثابت ہوئے.اگردرد کا مداوا کرنے والا موجود ہوتا تو شاید خود کو ختم کرلینے کی نوبت کبھی نہیں آتی.
زندگی میں کبھی حوصلہ مت ہارنا. ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لینا اور برداشت کا دامن تھامے رکھنا. یہ سبق پڑھانے والے چند منٹ یا گھنٹوں کا لیکچر دے کر روانہ ہوجاتے ہیں.کیا ان کو یقین ہوتا ہے اس سبق کو پڑھنے کے بعد ڈپریشن میں مبتلاکوئی شخص اس سے باہر نکل آئے گا؟ ڈپریشن کے مریض کواپنے ہر دکھ، ہر تکلیف کا آخری حل زندگی کا خاتمہ ہی نظر آتا ہے.محض مریض کی نفسیات کو سمجھ لینے پر ہی اکتفا کرناکہاں کی دانش مندی ہے؟ مریض کو تنہائی جیسے مرض سے باہر نکالنا اصل کامیابی ہے.
خاص طور پر نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان، اور خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات ہمارے معاشرے میں سوالیہ نشان بن گئے ہیں اور اس کا جواب میرے پاس تو نہیں ہے. زندگی سے خودکشی تک یہ سفر جاری ہے. فرق صرف یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طریقۂ کار میں تبدیلی آگئی ہے.