مغلوں نے ہندوستان پر انگریزی زبان کے بل بوتے پر حکومت کی اور انگریزوں نے فارسی زبان کے سہارے ہندوستان پر حکومت کی۔ آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ کیالکھ رہا ہوں۔ سب کو پتہ ہے کہ انگریزی انگریزوں کی زبان ہے اور مغل دور میں دربار اور دفتر کی زبان فارسی ہوتی تھی۔ اگر دونوں ہی زبانیں برصغیر کے لوگوں کیلئے غیرملکی تھیں تو پھر یقیناً دونوں حکمران بھی ہندوستان کے لوگوں کیلئے غیرملکی ہوئے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کوصحیح تاریخ پڑھائیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان پر کبھی بھی مقامی لوگوں نے حکومت نہیں کی اور ہندوستان ہمیشہ سے ہی اپنی دولت اور غلے کی فراوانی کی وجہ طالع آزماؤں کی آماجگاہ رہا ہے۔ ویسے تو یہاں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ تجارت کے سلسلے میں بہت پہلے سے شروع ہوچکا تھا۔ فاتح کے طور پر آمد محمد بن قاسم سے شروع ہوئی اور بنو امیہ کی حکومت ختم ہونے بعد مرکز کی توجہ سندھ کی طرف کم ہی رہی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ محمود غزنوی سے دوبارہ شروع ہوتا ہے اور اس کے سترہ حملے ہم سب نے اسکول میں پڑھے ہیں۔ غوری نے غزنوی حکومت کا خاتمہ کیا اور پہلی دفعہ ہندوستان میں گورنر تعینات کیا جو قطب الدین ایبک تھا۔ اس کے بعد ہندوستان کی حکومت خاندان غلامان سے ہوتی ہوئی مختلف خاندان جس میں بلبن، خلجی، تغلق اور سید خاندان شامل ہیں ان سے ہوتی ہوئی لودھیوں کے پاس آئی اور اس خاندان کا پہلا حکمران بہلول لودھی تھا اور بابر نے ہندوستان کا تخت اس کے پوتے ابراہیم لودھی کو شکست دیکر حاصل کیا تھا۔
شاید آپ کو یہ بات بہت دلچسپ لگے کہ مغل آپس ترکی زبان میں بات کرتے تھے تاکہ کوئی اور ان کی بات نہ سمجھ سکے اور دفتر یا دیوان کا سارا کام فارسی زبان میں ہوتا تھا، مطلب کچھ بھی مقامی نہیں تھا۔ مغل نو مسلم لوگوں کو بھروسے کے قابل نہیں سمجھتے تھے کہ جو لوگ اپنا مذہب چھوڑ سکتے ہیں وہ کچھ بھی چھوڑ سکتے ہیں ان کے مقابلے میں مقامی ہندو کو زیادہ قابل بھروسہ سمجھتے تھے اور ان سے شادیاں بھی کی اور کبھی تعداد کو اپنے لئے قدغن نہیں سمجھا۔ ان کے دربار میں کام کرنے کیلئے لوگ دور دور سے آتے تھے کہ جیسے ایران، اصفہان اور وسطی ایشیا سے اور چونکہ مغل سیدوں کی بہت عزت کرتے تھے تو لوگ اپنا شجرہ نسب ساتھ لیکر آتے تھے اور جن کے پاس مطلوبہ شجرہ نہیں ہوتا تھا وہ بنوا لیتے تھے (آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نادرا سے بہت پہلے سے اس خطے میں یہ کام ہوتا تھا)۔ یہ صرف ہندوستان میں حکومت کرنا جانتے تھے۔ ان کی یہ خوبی بھی آپ کو جانی پہچانی لگے گی اور انھوں نے ہندوستان میں تعلیم کیلئے کوئی درسگاہ نہیں بنائی کیونکہ کسی ایک زبان پر حکمران اور عوام متفق نہیں تھے۔ ان سے صدیوں پہلے مصر میں فاطمی حکومت تھی اور ان کی قائم کردہ جامعہ الازہر آج بھی قائم ہے۔
اس دور میں مسلمان یا تو عسکری خدمات میں ہوتا تھا یا خوشامد کرتا ہوا درباری ہوتا تھا دونوں خدمات کے نتیجے میں جاگیر ملتی تھی اور اس پر وہ مزے کرتا تھا اور اس کے مزاروں اور کاشتکاروں کی زندگی آج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی تھی۔ دفاتر کا سارا کام ہندو سنبھالتے تھے جو فارسی سیکھ کر آتے تھے اور یہ اسی دور کا محاورہ ہے کہ “ہاتھ کنگن کو آرسی کیا اور پڑھے لکھے کو فارسی کیا”۔ اسی لئے جب انگریز آیا تو ہندو کو کوئی فرق نہیں پڑا اور اس نے فارسی کی جگہ انگریزی سیکھی اور کام کرنا شروع کردیا، مسلمانوں یہ سبق سیکھنے میں کئی دہائیاں لگی اور جب یہ سبق سیکھا بھی تو انگریزوں کے ملازموں اور غلاموں سے سیکھا جو آج بھی ہم پر کسی نہ کسی طرح حکومت کررہے ہیں۔
مجھے اندازہ ہے کہ یہ مضمون کچھ طویل ہوگیا ہے۔ ایک اور جھوٹ جو ہمیں پڑھایا گیا ہے کہ اس دور لوگ بہت خوشحال تھے اور ہر طرف امن ہی امن تھا، دونوں باتیںجھوٹ ہیں۔ بادشاہ سانپ کی طرح آمدنی کے تمام ذرائع پر قابض تھا لیکن اس کو لوگوں کی بھوک کا بھی اندازہ تھا اس لئے سال میں دو تین دفعہ خود کو سونے اور جواہرات میں وزن کرواکر لوگوں میں بانٹتا تھا۔ اگر لوگ خوشحال تھے تو لینے والے کون لوگ ہوتے تھے۔ اسی لئے کبھی باغ، کبھی قلعہ اور کبھی مقبرہ بنواتا تھا تاکہ لوگوں کچھ نہ کچھ روزگار ملتا رہے۔ جاگیر بادشاہ کو فوجی خدمات فراہم کرنے پر یا خوشامد اور چاپلوسی کی وجہ سے ملتی تھی اور یہ مورثی نہیں ہوتی تھی۔ جس کو جاگیر ملی ہوتی تھی اگر اس کا انتقال ہوجائے تو اب بادشاہ کے حکم کے بغیر کوئی پیسہ نہیں نکالا جاسکتا تھا اور یہاں سے تین دن چولہا نہ جلنے والے سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ لوگ اپنی دولت برتنوں میں چھپا کر زمین میں دفن کرتے تھے اور ہم نے چلتی دیگ جیسی کہانیاں پڑھی اور بادشاہ مرجائے تو شہزادوں میں تخت کی وہ جنگ چھڑتی تھی کہ اللہ کی پناہ۔ انھیں مغلوں میں اورنگزیب عالمگیر جیسا بادشاہ آیا کہ جس کیلئے لکھا گیا کہ نہ کبھی کوئی نماز قضا کی اور نہ ہی کوئی بھائی زندہ چھوڑا۔
حکومت مغلوں کی ہوں یا غیر مغلوں کی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ملک کے حالات وہی ہیں جو مغلوں کے دور حکومت میں تھے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور نہ آسکتی ہے اور نہ ہی اس دفعہ کسی انگریز کے آنے کی امید ہے کیونکہ اس دفعہ انگریز اور مغل ملکر حکومت کررہے ہیں۔ اور اب تو عوام کے پاس اتنے پیسے اور جواہرات بھی نہیں کہ دیگچی میں ڈال کر زمین میں چھپائیں اسی لئے عوام خود جوق در جوق انگریزوں کے پاس جارہے ہیں اور انگریز کہہ رہے ہیں ارے کم بختو تم سب نے اگر یہیں آنا تھا تو پھر ہمیں کیوں نکالا؟ کیا ہم نے واقعی انگریزوں کو نکالا یا خود کو انگریز کی غلامی سے نکال کر انگریز کے نوکروں اور کارندوں کی غلامی دے دیا۔ اگر وقت ملے تو ضرور سوچئے گا۔