The news is by your side.

پی آئی اے کی نجکاری: کیا قومی ایئرلائن کا ‘قرض’ اب ‘اثاثہ’ بن پائے گا؟

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے)، جو کبھی اپنی پرواز اور معیار کی بدولت ملک کا وقار سمجھی جاتی تھی، گزشتہ کئی دہائیوں سے قومی خزانے پر ایک ایسا بوجھ بن چکی تھی جسے اٹھانا اب ریاست کے بس میں نہ رہا تھا۔

2020 کی دہائی کے وسط تک صورتحال یہ تھی کہ یہ ادارہ سالانہ 100 ارب روپے سے زائد کا خسارہ کر رہا تھا، جبکہ اسے چلتا رکھنے کے لیے ہر سال عوام کے ٹیکسوں سے 35 ارب روپے کی بھاری سبسڈی دی جا رہی تھی۔ مجموعی طور پر پی آئی اے 670 ارب روپے کے تاریخی قرضوں تلے دبی ہوئی تھی۔

ادارے کی مالی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی ایکویٹی 700 ارب روپے تک منفی ہو چکی تھی اور عملے کی تعداد عالمی معیار سے کہیں زیادہ تھی۔ رہی سہی کسر 2020 کے پائلٹ لائسنس اسکینڈل نے پوری کر دی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پی آئی اے پر پابندیاں لگیں اور اس کے سب سے منافع بخش روٹس بند ہو گئے۔ وہ پیسہ جو اسکولوں، ہسپتالوں اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ ہونا چاہیے تھا، سالہا سال سے ایک ایسے ادارے کی نذر ہو رہا تھا جو مسلسل ڈوب رہا تھا۔

Privatizing PIA: A Turning Point for Pakistan’s Economy

دسمبر 2025 میں اس جمود کا خاتمہ اس وقت ہوا جب حکومت پاکستان نے پی آئی اے کے 75 فیصد حصص عارف حبیب کارپوریشن کی سربراہی میں قائم کنسورشیم کو 135 ارب روپے میں فروخت کر دیے۔ یہ محض ایک تجارتی سودا نہیں تھا، بلکہ پاکستان کی معاشی تاریخ کی ایک ایسی بڑی اصلاح تھی جس کے اثرات دور رس ثابت ہوں گے۔

اس نجکاری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب ٹیکس دہندگان کا پیسہ کسی “بلیک ہول” میں نہیں گرے گا۔ وہ 35 ارب روپے جو ہر سال پی آئی اے کو زندہ رکھنے کے لیے دیے جاتے تھے، اب پاکستان کے 146 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی یا عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں استعمال ہو سکیں گے۔ اگرچہ حکومت نے ایئرلائن کے 670 ارب روپے کے پرانے واجبات خود سنبھال لیے ہیں تاکہ اسے خریدار کے لیے پرکشش بنایا جا سکے، لیکن اب مستقبل میں کسی نئی سبسڈی کی گنجائش ختم کر دی گئی ہے۔

پی آئی اے کی نجکاری

حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ درست سمت میں تھا۔ جب 2024 میں قرضوں کو ایئرلائن سے الگ کیا گیا، تو پی آئی اے نے 2025 کی پہلی ششماہی میں 11.5 ارب روپے کا منافع دکھایا—جو کہ گزشتہ بیس سالوں میں پہلی بار ہوا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ادارے پر سے سیاسی اور مالی بوجھ کم کیا جائے تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔

نجی انتظام اور پیشہ ورانہ نظم و ضبط

سرکاری انتظام کے برعکس نجی شعبہ اپنے ساتھ کارکردگی اور جوابدہی لاتا ہے۔ پی آئی اے کے پاس دنیا کے 97 ممالک کے ساتھ فضائی معاہدے اور 170 سے زائد مقامات پر لینڈنگ سلاٹس موجود ہیں، جو اب تک ضائع ہو رہے تھے۔ معاہدے کے تحت فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ طیاروں کی جدید کاری پر خرچ ہوگا، جس سے مسافروں کو پرانے طیاروں کے بجائے جدید اور آرام دہ سفر کی سہولت ملے گی۔

جہاں تک عملے کا تعلق ہے، سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے بوجھ کو ‘رضاکارانہ اسکیموں’ کے ذریعے کم کیا جائے گا، جبکہ ملازمین کے حقوق اور پنشن کا تحفظ بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ جب طیاروں اور عملے کا تناسب عالمی معیار کے مطابق ہوگا، تو کرایوں میں کمی اور سروس کے معیار میں بہتری آئے گی، جس کا براہِ راست فائدہ سیاحت اور تجارت کو ہوگا۔

عالمی منڈی کے لیے مثبت پیغام

پی آئی اے کی نجکاری عالمی مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف (IMF) کے لیے ایک مضبوط سگنل ہے کہ پاکستان اب سخت معاشی فیصلے کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ اس ایک کامیاب تجربے نے دیگر خسارے والے سرکاری اداروں، جیسے کہ اسٹیل ملز اور بجلی کی کمپنیوں کی نجکاری کے لیے بھی راستہ ہموار کر دیا ہے۔

عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ ایئرلائنز کی نجکاری کے نتائج مثبت نکلتے ہیں۔ کینیا ایئرویز اور ساموا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جہاں خسارے میں ڈوبے ہوئے اداروں نے نجی انتظام میں آتے ہی نہ صرف منافع کمانا شروع کیا بلکہ ملکی معیشت میں اربوں ڈالرز کا اضافہ بھی کیا۔

آج پاکستان کی قومی ایئرلائن ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ اب یہ ادارہ سیاسی نوازشات کے بجائے کاروباری بنیادوں پر چلے گا۔ یہ نہ صرف پی آئی اے کی بقا کے لیے ضروری تھا بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستانی معیشت کی طرف پہلا قدم بھی ہے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب پی آئی اے ایک بار پھر فضاؤں میں اپنی کھوئی ہوئی پہچان حاصل کر لے گی۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں