The news is by your side.

ثناء یوسف کا اندوہناک قتل: فلم و ٹی وی پر تشدد کی تمجید اور اس کے مہلک اثرات

اسلام آباد کی ایک پُرامن شام 2 جون 2025 کو ایک خونی سانحے میں تبدیل ہو گئی، جب 17 سالہ معروف پاکستانی ٹک ٹاک اسٹار ثناء یوسف کو ان کے اپنے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ ثناء، جن کا تعلق اپر چترال، خیبر پختونخوا سے تھا، سوشل میڈیا پر خاصی مقبول تھیں۔ ان کے ٹک ٹاک پر 740,000 اور انسٹاگرام پر تقریباً 500,000 فالوورز تھے۔ ان کے ویڈیوز میں عموماً ان کی دوستوں کے ساتھ مصروفیات اور علاقائی ثقافت کو اجاگر کیا جاتا تھا۔

قتل کے روز، ثناء اپنی پھپھو کے ساتھ گھر میں موجود تھیں جب عمر حیات عرف “کاکا” اُن سے مبینہ طور پر ملنے آیا۔ ثناء اور اس کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور ثنا نے اُسے گھر کے اندر موجود کیمروں کا حوالہ دیتے ہوئے باہر جانے کو کہا اور کہا کہ وہ پانی لے کر آتی ہیں۔ اسی دوران عمر نے قریب سے دو گولیاں ان کے سینے میں ماریں، جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔

بعد ازاں ان کی والدہ کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی، اور پولیس نے 20 گھنٹوں کے اندر عمر کو فیصل آباد سے گرفتار کر لیا۔ اس نے اقرار جرم کرتے ہوئے کہا کہ اسے ثناء کی طرف سے بار بار انکار کا سامنا تھا، جو اس کے غصے اور انتقامی جذبے کا سبب بنا۔

فلم و ٹی وی پر تشدد کی تمجید: ایک سماجی ناسور

ثناء یوسف کے قتل کے پیچھے ایک اور تشویشناک پہلو ہے جس پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے، اور وہ ہے فلموں، ڈراموں اور ٹی وی شوز میں تشدد کی تمجید اور غیر صحت مند رومانی تصورات کی مسلسل پیشکش۔

پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا میں ایسے کردار عام ہیں جو “عشق میں ناکامی” پر تشدد، تعاقب، یا حتیٰ کہ قتل جیسے اقدامات کو “محبت” یا “مردانگی” کا مظاہرہ قرار دیتے ہیں۔ ایسے ڈرامے جہاں مرد کا انکار برداشت نہ کرنا ایک “مضبوط کردار” کے طور پر دکھایا جاتا ہے، یا فلموں میں خواتین کو “منانے” کے لیے اُن کے پیچھے پڑ جانا ایک کامیڈی یا رومانوی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، اصل زندگی میں سنگین جرائم کو جنم دے سکتے ہیں۔

نفسیاتی اثرات اور نوجوانوں کا ذہنی سانچہ

عمر حیات جیسے نوجوان جب بار بار ایسی کہانیاں دیکھتے ہیں، تو ان کے ذہن میں ایک جھوٹا اور خطرناک تصور بیٹھ جاتا ہے کہ “محبت کا انکار” ان کی “عزت” یا “انا” پر حملہ ہے، جس کا بدلہ لینا ضروری ہے۔ جب معاشرہ اور میڈیا مسلسل ایسے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں، تو یہ فرد کی سوچ کو متاثر کرتا ہے، اور وہ حقیقی زندگی میں بھی ویسا ہی برتاؤ کرتا ہے جیسا اسکرین پر دیکھا ہو۔

کیا کیا جا سکتا ہے؟

  1. میڈیا ریگولیشن: فلم و ڈرامہ نویسوں، پروڈیوسرز اور سینسر بورڈز کو اس بات کی ذمہ داری لینی ہو گی کہ وہ ایسے مناظر یا کہانیاں نہ دکھائیں جو تشدد، جنون یا زبردستی کو “محبت” کے روپ میں پیش کریں۔
  2. نصاب میں تربیتی مواد: تعلیمی اداروں میں جذباتی ذہانت، خواتین کے حقوق، اور باہمی احترام پر مبنی تربیت دی جانی چاہیے۔
  3. سوشل میڈیا پر اخلاقی حدود: سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو بھی چاہیے کہ وہ نوجوانوں میں صحت مند، مثبت اور پرامن بیانیے کو فروغ دیں۔
  4. قانون سازی اور نفاذ: خواتین کے خلاف جرائم، بالخصوص “غیرت” کے نام پر تشدد کے خلاف سخت قوانین بنانے اور ان پر مؤثر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

ثناء یوسف کا قتل صرف ایک فرد کا نقصان نہیں، بلکہ یہ معاشرے کی اجتماعی ناکامی کا آئینہ دار ہے۔ جب تک ہم فلموں، ڈراموں، اور سوشل میڈیا پر موجود تشدد کی تمجید کو ختم نہیں کریں گے، اس قسم کے سانحات بار بار ہمارے دروازے پر دستک دیتے رہیں گے۔

ثناء یوسف نے قاتل کو مرنے سے قبل کیا کہا تھا؟

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں