The news is by your side.

ایک بار پھرانتخابات اور ہم

بلدیاتی انتخابات کی درجہ حرارت اس قدرعروج پر ہے کے گلی، کُوچہ،بازار ہو یا کوئی شادی بیاہ کی تقریب آپ کو ایک ہی گفتگو سُننے کو ملے گی اور وہ ہے آنے والے بلدیاتی انتخابات۔

 نہ جانے کیوں سیاست ہماری رگ رگ میں بسی ہے؟ کاش اگر خودغرضی کی اس سیاست کی جگہ ہماری رگوں میں ایماداری کا خون دوڑتا تو آج اسملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔

یہاں میرا تمام اُن لوگوں سے سوال ہے جو کہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ کیا یہ لوگ الیکشن صرف اورصرف نیک نیتی سے عوام کے خدمت کیلئے لڑتے ہیں ؟ کیا اُن کی یہ کوشش ہوتی ہے کے وہ اقتدارمیں اکر اس عوام کی تقدیر بدلیں گے؟

میرا نہیں خیال کے سارے لوگ اسی مقصد کو لے کرالیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

کیا ہم نے کھبی کسی بچے کو اسکول پڑھنے کی ترغیب دی ہے؟ کیا ہم نے کبھی بھی کسی نیک کام کو بلا معاوضہ انجام دیا ہے؟ کیا ہم میں سے کسی نے کبھی مفت پڑھایا ہے؟ ہم لوگ کسی این جی او کے مٹینگ میں بھی پیسوں کے بغیرنہیں جاتے ہیں، یہاں تک کہ ہم کسی کو مفت مشورہ تک نہیں دے سکتے ہیں۔اگر ہم اتنے چھوٹے چھوٹے کام بغیر پیسوں کے نہیں کرسکتے ہیں تو ہم ناظم یا کونسلر بن کے کیا خاک عوام کی خدمت کریں گے؟کیوں کے وہاں کوئی اچھی خاصی تنخواہ بھی نہیں ملتی ہے۔ کیا ہم سب مفت کام کیلئے اتنے ہی بے چین ہیں کے اس کے لئے مہم بھی چلارہے ہیں؟

اگر میں اپنے علاقے کا ذکر کروں تو یہاں سے ہرالیکشن میں کوئی نہ کوئی ایم پی اے، ایم این اے، ناظم یا کونسلرضرور جیتا ہے لیکن کسی نے کچھ نہیں کیا ہے۔ ہمارے علاقے میں نہ سڑک ہے، نہ تعلیم کے موقع ہیں اورنہ ہی صحت کے، کالام روڈ پچلے تین سال سے تباہ حال ہے کسی نے بھی ابھی تک اس پرآواز اُٹھانے کی جُرات نہیں کی۔

سوات کوہستان میں سب سے بڑے اوراہم مسائل تعلیم، صحت اورمواصلات کے ہیں۔ ویسے تو شروع سے ہی اس علاقے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے لیکن سیلاب اورطالبانائزیشن کے بعد اربوں روپے کے فنڈز ملنے کے باوجود بھی علاقے کو نظرانداز کیا گیا اور کسی نے والینٹئرلی اس پرآواز بھی اُٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ بحرین سے اگے کالام روڈ کیلئے کئی دفعہ فنڈزمنظور ہوئے اور ملے بھی لیکن ابھی تک اس کی تعمیر نہیں ہو سکی۔ میری طرح سب لوگ انتظار کررہے ہیں کہ ہمیں ہمارا حق ملے گا نہیں یہاں جب تک آپ اپنا حق چھینگے نہیں تو آپ کو آپ کا حق نہیں ملنے والا۔

علاقے کا دوسرا بڑا ا مسئلہ جو کہ صحت کا ہے کیلئے وسائل نہ ہونے کے برابر ہے پورے علاقے میں ایک ہی بی ایچ یو بحرین میں ہے جس میں پچھلے کئی سالوں سے کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں ہے اور نہ ہی صحت کے بنیادی ضروری چیزیں دستیاب ہے ایک ہفتے پہلے کچھ والدین سے ملاقات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ، پچلے کئی دنوں سے بچوں کیلئے ویکسین موجود نہیں ہے اور ہسپتال انتظامیہ عوام کو بار بار اپنے بچے دوبارہ لانے کو کہتے ہیں، جب والدین دور دور سے دوبارہ بچوں کو بحرین لے آتے ہیں تو پھر سے انہیں ویکسین نہیں ملتے ہیں۔ اس مسلے کیلئے بھی کسی نے احتجاج کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اب آتے ہیں ایجوکیشن کی طرف ،سوات کوہستان میں 10فیصدگرلز پرائمری سکول سال بھر بارہ مہنے خالی ہوتے ہیں ۔ تحصیل بحرین کے مختلف علاقوں توروال ، بویوں کالام، کس کالام، گورنئی، پونکیا، بالاکوٹ ، اُشو، رامیٹ اور کئی دیگر گاوٗں میں گرلز پرائیمری سکولز اکثر سال بھر خالی ہی پائے جاتے ہیں، علاقے کے باقی ا سکولوں میں چھ مختلف کلاسوں اورسو سے زیادہ سٹوڈنٹس کیلئے صرف ایک ہی ٹیچرتعینات کی گئی ہے جس کا تعلق بھی اکثر سوات کی زیریں علاقوں سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہفتے میں صرف تین دن سکول میں حاضری دیتی ہے۔

ایجوکیشن ڈپارٹمینٹ کو چاہیے کے ہرپرائمری سکول میں مقامی ٹیچر تعنات کریں تاکہ وہ کم ازکم پورے ہفتے کیلئے سکول میں حاضری دے سکے، اس کے علاوہ ہرگرلز پرائمری سکول میں دو ٹیچر ہونے چاہیے، کیوں کی ایک ٹیچر کیلے بیک وقت چھ کلاسز کو چلانا کونسی تعلیمی پالسی کا حصّہ ہے؟ دو ٹیچرز کا ہونااسی لئے بھی ضروری ہے کے اگر ایک ٹیچر بیمار پڑجاتی ہے تو دوسری سکول چلائیگی، ہمارے سکولز ذیادہ تر اسی وجہ سے بھی بند رہتے ہیں کہ ایک ہی ٹیچر ہوتی ہے اور وہ اگربیمار پڑجائے گی تو ظاہر ہے کہ سکول بند رہیگا یہ تو صرف ایک چھوٹے سی علاقے کے چند مسائل تھے جو میں نے قارئین کے نذر کئے باقی تو پورا ملک آپ لوگوں کے سامنے ہے ۔

ان تمام تر مسائل کے باوجود بھی ہم لوگوں نے کبھی احتجاج یا اپنے حق کیلئے آواز اُٹھانے کی کوشش نہیں کی، پتہ نہیں ہم کب اپنے حقوق کو سمجھیں گے؟

یہ سب جان کرکے ہم سب کتنے نکمے ہیں پھربھی الیکشن لڑنے کیلئے پُرعزم ہیں اورامیدواروں سے زیادہ خوش تو وہ ووٹرز ہوتے ہیں جنہیں الیکشن جیتنے کے بعد کوئی پہچانتا بھی نہیں ہے۔

Print Friendly, PDF & Email