برصغیر پاک و ہند میں 1857ءکی ناکام جنگ آزادی سے1947ءکے بٹوارے تک ایک طویل جدوجہد ہے ۔آزادی پسندوں کو تو پو ں کے دہانے پر رکھ کر اڑا دیا گیا،۔ لیکن آزادی کی شمع دلوں میں روشن رہی، پاکستان کی بنیادیوں میں 20لاکھ لوگوں کا مقدس لہو شامل ہے، مشرقی پنجاب ، ہریانہ، دہلی سمیت مسلم اقلیتی صوبوں سے دیگر علاقوں سے مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زائد لوگ آگ وخون کے دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے۔بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کالے انگریزوں نے پاکستان اورکروڑوں پاکستانیوں کی آزادی کو سلب کر لیا اور 98فی صد غریب و متوسط طبقے کے لئے اقتدار کے ایوان شجر ممنوعہ بنا دئے گئے، 2فیصد جاگیرداروں،وڈیروں، سر مایہ داروں نے اقتدارکے ایوانوں پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا، بددیانتی ، رشوت خوری، اقربا پروری، بے ایمانی، لوٹ مار کی زنجیروں میںپاکستان کو جکڑ دیاگیا اور کروڑوں پاکستانیوں کا مقدر مہنگائی ، بے روزگاری بد حالی بنادیا گیا۔
قدرت کو رحم آیا اور 11جون1978ءکو جامعہ کراچی میں ایک نوجوان طالب علم الطاف حسین نے پاکستان میں سے نسلی امتیاز کے خاتمے اور تمام پاکستانیوں کو برابر کا پاکستانی اور مساوی حقوق کا حق دار تسلیم کرانے کی جدو جہد کا آغاز کیا۔۔ پہلے مرحلے میں طلباءتنظٰم”آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ”تشکیل دی گئی۔”زمانہ قبل از الطاف حسین”میں ایوب خان کے فاطمہ جناح کے مقابلے میں الیکشن جیتنے کی خوشی میں گوہر ایوب نے جلوس نکالا اور کراچی میں اردو بولنے والوں کی بستیوں پر حملے کئے گئے ، ممتاز بھٹو نے سندھ اسمبلی میں لسانی بل پیش کیا ، مہاجر اکابرین اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین لسانی معاہدہ ہوا۔11جون 1978ءکو الطاف حسین نے کچلے ہوئے محروم اور پسے ہوئے عوام بالخصوص نوجوان طلباﺅطالبات کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ 11جون پاکستان میں حق پرستی کا شمع روشن کرنے کا دن ہے۔انقلابی تحریکوں کے کارکنان طویل اور صبر آزما جدوجہد کے لئے ا پنے قائد پر یقین کامل رکھتے ہوئے اپنے نظریاتی کاز کو آگے بڑھاتے ہیں قائد پر یقین کامل انقلابی راستوں پرذاد راہ ہوتا ہے۔ انقلابی تحریک کے کارکنان اپنے مشن مقصد کاز کے لئے اپنی خواہشات امنگوں کی قربانی دیتے ہیں سیاسی جماعتوں اور انقلابی تحریکوں میں بہت واضح فرق ہے سیاسی جماعتیں لچھے دار منشور پیش کر کے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ انقلابی تحریکیں ذہنوں کو بیدار کرکے فرسودہ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔
انقلابی تحریکوں میں نوجوان طلباءو طالبات کاکردار ہراول دستے کا ہوتا ہے۔ ڈسپلن انقلابی تحریک کی روح ہے۔قومیںروپے پیسے کی ریل پیل اور قدرتی وسائل کی فراوانی سے نہیں بلکہ دانش مند مخلص ایماندار با صلاحیت ولولہ انگیز انقلابی قیادت اور ڈسپلن کی بدولت عظیم بنتی ہے۔ عصر حاضر میں چین کی بے مثال ترقی ہمارے لے روشن مثال ہے۔پاکستانی سماج میں خراجی کی سب سے بڑی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور فاضل دولت ہے رزق کے سر چشموں پر 2فیصد جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ دار قابض ہیں اور 98فیصد عوام بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہے لوگ مہنگائی بےر وزگاری کی وجہ سے خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں اور اپنے بچوں کو برائے فروخت کا بورڈ لگا رکر کھڑے ہوتے ہیں۔
قائد تحریک الطاف حسین کی انقلابی جدوجہد نیلسن منڈیلا کی طرز پر اور سماجی خدمات مدر ٹریسا کی طرح ہے۔الطاف حسین چاہتے ہیں کہ پاکستان کے98فیصد محروم و مظلوم عوام اپنی صفوں سے میرٹ کی بنیاد پر تعلیم یافتہ ، نیک ، باکردار اور ایماندار قیادت کو اقتدار میں لائے اور اس میںنوجوان طبقہ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ نوجوانوں بالخصوص طلباءو طالبات انقلابی تحریک کا ہراول دستہ ہوتے ہیں قیام پاکستان میں بھی طلباءو طالبات کی بھی بہت بڑی جدو جہد ہے ۔ پاکستان کو در پیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے نوجوانوں بالخصوص طلبہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی اور اقوام عالم کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے پاکستان کا نہری نظام دنیا میں سب سے بڑا ہے ہم دنیا کی چھٹی آبادی والا ملک ہے ہماری کپاس اور چاول کی پیدا وار پوری دنیا میں نمایا ںہے پاکستان کی ٹیکسٹائیل کی صنعت دنیا کی پانچوں بڑی صنعت اور دھاگے کی برآمدات چوتھے نمبرپر ہے۔ پاکستان کو قدرت نے سونے، چاندی، تانبے ،لوہے اور کوئلے کے ذخائر سے نوازا ہے پاکستان کو ترقی کے ماڈل کے طور پر امریکہ ،آسٹریلیا ،چین اور ترکی سے سیکھنا چاہئے۔ پاکستان میں سنگاپور کی طرز پر اسمارٹ سٹی کا قیام ضروری ہے جنوبی ایشیاءکے ممالک کے مابین یورپی یونین کے طرز پر قریبی تعلقات وقت کی ضرورت ہے پاکستان کوزرعی طاقتوں کا کلب بنانا چاہیے پاکستان کے دفاع کو نا قبل تسخیر بنانے کے لے تمام پاکستانی مرد و عورت کو ایک سال کی لازمی فوجی ٹریننگ دی جانی چاہئے۔
پاکستانی طلبا و طالبات کو دل لگا کر تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی میدان میں نئی ایجادات کرنی چاہئے اس کے لئے رٹا لگانے کی بجائے دل جمعی سے تعلیم حاصل کرنی ہوگی اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے دن رات محنت لگن سے کام کرنا چاہئے اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کر کے انٹرنیشنل کمیونٹی میں باوقار مقام دلوائے ۔پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے متفقہ راہ نما الطاف حسین پاکستان کو جدید ترین ریاست بنانا چاہتے ہیں جو خود انحصار و خود مختیار ہو ۔پاکستان کو معاشی لحاظ سے مستحکم ریاست بنانے کے لئے پاکستانی قوم کے ہر ایک فرد کوبھر پور محنت کرنا ہوگی اور یہ راتوں رات ممکن نہیں ہے اس کے لئے ایک طویل اور صبر آزماجدوجہد کرنا ہوگی۔پاکستان کی ترقی پاکستانیوںکے ذریعے ہی ممکن ہے ۔