انسانی تاریخ کا پہلا تحریری آئین “میثاق مدینہ “ہمارے نبی حضرت محمد ؐ نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانیت کو عطا کیا ۔ قوموںاور معاشروں کو باوقاراندازمیں زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھایا برداشت اوررواداری کی عملی مثال دنیا کے سامنے پیش کی گئی مختلف قبائل، عقائد اورسوچ و فکرکے لوگوں کو مشترکہ معاشرے کے آداب سکھائے۔ انسانی تہذیب کو باہمی تعلقات کا نیا ویژن عطا ہوا، ایک نیا طرز حیات ملا۔ سرکار دو عالم حضرت محمد ؐ پر میرے ماں باپ قربان آپ ؐ کی زندگی ہمارے لیے اسوۃ حسنہ ہے مشعل راہ ہے۔
آج پاکستان کے اہل دانش ، طالب علموں اور پالیسی میکرز کو دعوت فکر یہی ہے کہ ملک و قوم کو درپیش خطرات ، چیلنجز، دہشت گردی ، معاشی و معاشرتی مسائل اور تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے حضرت محمد ؐ کے عطا کردہ”میثاق مدینہ “کی روشنی میں پاکستان بھر میں بسنے والی تمام لسانی و ثقافتی اکائیوں ۔ مذہبی اکائیوں اور تمام عقائد ، جنس اورعلاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے قابل قبول اور قابل عمل نیا راستہ اپنایا جائے۔ ایک ایسا راستہ جس کے ذریعے پاکستان عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرکے اقوام عالم میں ایک با وقار ملک کی شناخت بنا سکے۔ ایسا شانداراورمثالی معاشرہ تشکیل دیا جائے کہ دنیا بھرکی اقوام واہل دانش پاکستان اورپاکستانیوں کی اجتماعی دانش، برداشت، رواداری، ایثار، معاشرتی استحکام، ترقی و خوشحالی پررشک کریں۔
تاریخ کا کڑا سچ یہ ہے کہ 1973کا “متفقہ آئین “بنانے والی اسمبلی اور قائد ایوان “غیر منتخب ” تھے اور مخصوص مفادات کے حامل ٹولے نے ملکی سیاسی نظام ہائی جیک کر لیا اورقراردادِ مقاصد کے نام پر 1973کے آئین کو عملاً یرغمال بنالیا۔ آج پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ پارلیمنٹ میں قوتوں کے “کیمسٹری فارمولا “کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو تصویر واضح ہو جاتی ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے ؟؟؟۔
جنگ عظیم دوئم کے موقع پر برطانیہ میں وینڈی چیمبرلین کی حکومت تھی ی۔ چیمبرلین کا جرمنی کے بارے میں مفاہمانہ رویہ تھا۔ پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ جنگ کے لیے قیادت بدلنا ہوگی اورسرونسٹن چرچل کو قیادت سونپی گئی۔
طالبان دہشت گردی پرپارلیمنٹ میں کھلی بحث ہونی چاہیے جس میں ہررکن لازمی طورپراظہار خیال کرے تاکہ طالبان کے حامی اور مخالف واضح ہو سکیں اور اس پارلیمانی بحث کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے لائیو پوری قوم کو براہِ راست دکھایا جائے تاکہ قوم اپنے منتخب نمائندوں کے اصل چہروں کو دیکھ سکے۔
پارلی منٹ “طالبان دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ “کا باضابطہ اعلان کرے اور پاکستان میں نیا قومی قائد چنا جائے جو طالبان نظریات کے خلاف رواداری، برداشت اور ڈسپلن کی قوم کو تعلیم دے اور طالبان دہشت گردی خلاف قومی جنگ کی قیادت کرے۔ “نیشنل وار روم “میں یونٹی آف کمانڈ کے ذریعے “آپریشن ضرب عضب “کی حکمتِ عملی تشکیل دی جائے۔
ادارہ جاتی استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل ضروری ہے۔ قدیم بادشاہوں سے زیادہ سکیورٹی کے پہرے میں چلنے والے حکمران ٹولہ کا رخ ٹھیک کرنا ہوگا۔ سیاسی اثرات سے پاک پولیس کے بغیرامن وامان کا قیام محض خواب ہوگا۔ پولیس میں اصلاحات ہونی چاہیے ۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کے لیے “بلدیاتی الیکشن “کروا کراختیارات گلی ، محلوں کے عام لوگوں کو دے دینے چاہیں اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا کام صرف قانون سازی ہونا چاہیے۔
پاکستان اور پاکستانیوں کو ایک ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے ۔ جس کا تعلق عام پاکستانیوں سے ہو اوراس لیڈر نے غربت دیکھی ہو مشکلات میں سے گزرا ہواورنمود و نمائش کے بجائے اپنے ملک و قوم کو عملی طورپرخدمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پاکستان کو مذہبی جنونیت سے پاک کرنے کے لیے انتہا پسندی کے خلاف جرات مند، قومی قائد الطاف حسین ہے ۔ الطاف حسین “گاڈ گفٹڈ”رہنما ہے ۔ پاکستان کے پالیسی میکرزکوقومی تاریخ کے نازک موڑ پرالطاف حسین سے ملک کی قیادت کرنے کی درخواست کرنی چاہیے۔ آج پاکستان کے اہلِ دانش اور پالیسی میکرز کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو جدید لبرل،ماڈریٹ، ترقی یافتہ ملک بنانا ہے یا ایسا معاشرہ جو “مذہبی انتہا پسندی کی بارودی سرنگ”پر کھڑاہو۔