The news is by your side.

سیکولر، اسلامی یا با کردار لوگوں کا پاکستان

قائداعظم محمد علی جناح  کی ذات کے ساتھ 11 اگست 1948 کو دستورساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کچھ یوں منسلک ہوگئی ہے کہ لگتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی پوری زندگی میں اس ایک تقریر کے علاوہ کبھی کوئی اورقابل ذکرتقریر کی ہی نہیں۔

کچھ عرصے سے جب بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو دلیل یہی تقریربنائی جاتی ہے اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ منظم سازش کے تحت اس تقریرکو غائب کیا گیا تاکہ لوگ ریاست پاکستان کے حوالے سے  قائداعظم کے حقیقی خیالات سے آگاہ نہ ہوسکیں۔

اس تقریر میں بابائے قوم نے نوزائیدہ مملکت کے حوالے سے صرف اقلیتوں اور مذہبی آزادی ہی نہیں بلکہ اوردیگرمعاشرتی برائیوں اور ان کےخاتمے پر بھی بات کی تھی لیکن عموماً لوگ صرف اقلیتوں اورمذہبی آزادی والے الفاظ کا پرچارکرتے رہتے ہیں اور وہ تمام نکات جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی بنتے انکا ذکر اس خطاب کے تناظر میں ہرگزنہیں ہوتا۔

تقریرکا مکمل متن پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے اس خطاب میں سب سے پہلے فرمایا کہ حکومت کا اولین فرض ہے کہ عوام کےجان و مال اورمذہبی عقائد کا تحفظ یقینی بنائے۔ دوسری اہم ترین چیزجو واضح کی گئی وہ کرپشن اوررشوت ہے جس کو قائد نے زہر قراردیا اور اس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم کیا۔ تیسرے نمبر پر قائداعظم  روزمرہ ضروریات زندگی کی  اشیاء  کی بلیک مارکیٹنگ کو انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے والوں کےلئے کڑی سزاؤں کی تجویز دیتے ہیں۔ اقربا پروری اور بددیانتی بھی قائد کی نظروں سے نہیں بچتی وہ بغیر لگی لپٹی رکھے ان دو چیزوں کو برداشت نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہیں۔

اسکے بعد  قائداعظم تفصیلاً ان عوامل کا ذکر کرتے ہیں جو برصغیر کی تقسیم کا سبب بنے، ساتھ ہی تقسیم کے ناقدین کو واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ تاریخ اس فیصلے کو درست ثابت کرے گی۔ اس کے بعد ذکر ہوتا ہے پاکستان میں اقلیتوں کے مقام اور انکی مذہی آزادی کا یعنی ریاست انکے مذہبی عقائد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ ساتھ ہی نسل ،ذات پات کی برابری کا تعین کرتے ہوئے آخر میں قائداعظم انصاف کو اپنا رہنما اصول قرار دیتے ہیں۔

اس بحث سے قطع نظر کہ  قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے یاایسی ریاست جو اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے فلاحی ریاست میں ڈھل جائے جیسا کہ ان کی اکثرتقاریر اور اقوال سے واضح ہوجاتا ہے ،زیادہ اہم یہ ہے کہ مذکورہ تقریر میں وضع کردہ اصولوں پر عمل ہوجائے تو شاید سیکولر یا اسلامی کی بحث میں الجھے بغیر ہی پاکستان کے مسائل کا حل نکل آئے۔

کیا اسلام اقلیتوں کی آزادی سلب کرتا ہے؟ انہیں بزور طاقت تبدیلی مذہب پرمجبورکرتا ہے؟  کیا اسلام نسلی، ذات برادری کی تفریق کو ہوا دیتا ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب ’نہیں‘ ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کا سیکولر ہونا لازمی نہیں اسی طرح کیا سیوکلرازم  سماجی برائیوں کے خاتمے یا جرائم کی روک تھام کی ضمانت دیتا ہے یا اسلامی نظام تمام مسالک کی نمائندگی اور انکے ماننے والوں کو مطمئن کرپائے ، یہ ممکن ہے۔ یہاں بھی جواب منفی میں ہے تو پھر مملکت کا نظام کس معاہدہ عمرانی کے تحت تشکیل پائے اس کے نمایاں پہلو انفرادیت کے تابع ہوں یا اجتماعیت کے  اس دقیق بحث کی شقوں میں جانا اہم نہیں بلکہ ریاستی ڈھانچے کا دارومدار لوگوں کی فلاح و بہبود کو سامنے رکھتے ہوئےانصاف پرہونا لازم ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں اقربا پروری کی بدترین مثالیں حاکموں سے لیکر عام آدمی تک پھیلی ہوں ۔جہاں ملکی وسائل کرپشن کے پیسے میں تبدیل ہو کرذاتی اکاؤنٹ میں پہنچ جائیں۔ ملاوٹ، گرانی ذخیرہ اندوزی عام ہو۔ رشوت  محکموں کو دیمک کی طرح چاٹ جائے وہاں کا آئین ملک کو سیکولرقراردے یاخالص اسلامی کیا فرق پڑتا ہے؟۔

فرق اس وقت پڑتا ہے جب مساوات ہو، انصاف ہو، تب بنیادی مسائل کے حل کے بعد ایسے مباحث مدلل لگتے ہیں ورنہ محض گفتگو کی چاشنی بڑھانے کا سبب بن جاتے ہیں۔

لوگ یورپ کا رخ کیوں کرتے ہیں؟اسلئے کہ وہاں یہ تمام جملہ برائیاں جو معاشرے کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں، ناپید ہیں۔ لوگ ترقی کے بہترمواقع، پرسکون ماحول اور شخصی آزادی کی چاہ میں دیارغیرمیں جا بستے ہیں ۔ یورپ بھی تو ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، وہاں کا سماجی نظام بھی یوں ہی لڑکھڑاتے ہوئے اپنے پیروں پرجم کرکھڑا ہوگیا اور وجہ بنی مخلص لیڈرشپ، مقبول فیصلے، عوامی فلاح کا عزم ، تعلیم اور قانون کی عملداری۔

کہا جاتا ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز مذہب کو انفرادی خواہش تک محدود کردینے میں پنہاں ہے۔ اسکے برعکس حقائق بتاتے ہیں کہ انکی ترقی کے عوامل میں سرفہرست انسانی عقل کو محدود دائرے سے نکال کر وسعت دینے، اسکے بعد معاشرتی انصاف کاپہلو آتا ہے ۔ یہ دو چیزیں یورپ کو اس راستے پر لے گئیں جس پر چل کر وہ انسانی خرید و فروخت،  جہالت،اشرافیہ اور عوام کی چپقلش سے نکل کردنیا پرچھاگئے۔

اگر  مغربی اقوام یہ کرسکتی ہیں تو ہم پاکستانی کیوں اپنے ذہنوں پر چھایا جمود توڑ کرسوچ اورکردار کی بلندی کو نصب العین نہیں بناتے حالانکہ ہمارا مذہب اور ہمارے وطن کے  بانیان  ہمیں یہی سکھاتے ہیں لیکن ہم بھی کمال لوگ ہیں، ہم نے دونوں کی تعلیمات میں سے اپنی مرضی اور مطلب کی چیز ڈھنڈورا پیٹنے کےلئے باہر نکال کر باقی باتوں کو کتابوں تک محدود کردیاہے اور غلطی سے بھی انکی طرف واپس پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ اسی لئے بطور اکائی آگے بڑھنے کے بجائے ابھی تک قیام پاکستان اوربطورریاست پاکستان  کے  کام کرنے کے حوالے سے اس کے اولین سالوں میں اٹھنے والے بنیادی سوالوں کے گرد ہی چکر کاٹ رہے ہیں ۔ ان غیر ضروری غیر منطقی باتوں کے بجائے اگرملک کو قائداعظم کے اقوال اور ان کے متعین کردہ اصول و ضوابط جو دیانت، محنت، بےلوث خدمت اور حق اور سچ کی تلقین کرتے ہیں کے مطابق ڈھال لیا جائے تو قوم کا بھلا ممکن ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں