پاکستان فلم انڈسٹری ابھی پوری طرح کھڑی بھی نہیں ہونے پائی کہ لوگوں نے اسکے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچنا شروع کردی ہے۔
ایسا کرنیوالوں میں زیادہ تعداد ان سوشل میڈیا وارئیرز کی ہے جو پاکستانی کلچراوراقدار کے نام پرغیرضروری تنقید کرکے خود کو سچا پاکستانی ثابت کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔
شوبزکی بنیاد ہی گلیمرہے یعنی شوبز سے متعلق تمام شعبوں میں ایسی چکاچوند لازمی ہے جو دیکھنے والوں پر سحر طاری کردے اور’ فلم ‘ شوبز کا ایسا شعبہ ہے جو اس اصول پرپورا اترتے ہوئے اپنی تکنیک، اسکرپٹ، مکالموں، اداکاری، کاسٹیوم وغیرہ کے اعتبار سے بالکل ہی جداگانہ اورمنفرد حیثیت رکھتا ہے۔
جو لوگ اداکاراؤں کے فلم میں پہنے گئے ملبوسات پراعتراض کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ’رئیل لائف‘ اور ’ریل لائف‘ میں بہت فرق ہے۔ جو کچھ روزمرہ زندگی میں ناممکن لگتا ہے وہ پردے پر دکھائی جانیوالی تصوراتی زندگی میں ممکن ہوتا ہے تاکہ فلم بین کی دلچسپی برقراررہے۔ لہذٰا ملبوسات بھی عام ڈگر سے ہٹ کر بعض اوقات کیرکٹر اور بعض اوقات سین کی مناسبت سے تیار کئے جاتے ہیں۔ اب اگر گانا فلمایا جانا ہے تو ظاہر ہے کہ کاسٹیوم گلیمرائزڈ ہی ہوگا ، یہاں یہ اعتراض نامناسب لگتا ہے کہ ’پاکستانی کلچر سے انحراف‘ ہورہا ہے۔ یہی کچھ حال گانوں اور رقص کا کیا جارہا ہے کہ ہماری فلموں میں گانے اوررقص حد سے تجاوز کررہے ہیں حالانکہ ان فلموں میں اعضاء کی شاعری کا معیارانتہائی پست ہے۔ بیہودہ قسم کے آئٹم نمبرپراعترا ض بالکل جائز ہے لیکن یہ سمجھنا کہ فلمی گیت رقص کے بغیر فلمایا جائے، یہ بچکانہ سوچ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی بربادی کی بنیاد ضیاء دورکی بےجا سنسر پالیسیوں نے رکھی جس کی وجہ سے فلموں کی روح اورماہیت ہی تبدیل ہوکر رہ گئی اورفلم اسٹوڈیوز کی رونقیں ماند پڑتے پڑتے بالکل ہی بجھ گئی یہاں تک کہ سینما مالکان سینما توڑکرشاپنگ پلازہ بنانے پرمجبور ہوگئے ۔ یہی وہ دور تھا کہ جب وی سی آر کے سہارے بھارتی فلموں نے پاکستان میں اپنی گرفت مضبوط کی کیونکہ لوگوں نے فلم دیکھنی تھی، جب لوکل انڈسٹری تفریح فراہم کرنے میں ناکام ہوئی تو ناظرین نے بالی وڈ کی طرف رخ پھیر لیا۔ اب جبکہ خدا خدا کر کے لوگ سینیما میں پاکستانی فلم دیکھنے کیلئے آنا شروع ہوگئے ہیں تو ایک گروپ جس میں انڈسٹری کے کچھ لوگ بھی شامل ہیں اخلاقیات کے نام پر فضول بحث شروع کئے بیٹھے ہیں کہ ہمارا کلچر ایسی چیزوں کی اجازت نہیں دیتا۔ سوال صرف اتنا ہے کہ اگرپردہ سیمیں پر روکھی پھیکی چیز پیش کی جائے گی تو بھارتی فلم کے مقابلے میں اسے دیکھے گا کون؟ بالفرض بالی وڈ فلموں کی سینما میں نمائش پر پابندی لگ جائے تب بھی فلم بین بغیر چمک دمک کی کسی چیز کو قبول نہیں کریں گے۔
یاد رکھنے کی بات صرف یہ ہے کہ کمرشل فلم بنے گی تو گلیمر کے تڑکے کے ساتھ ہی بنے گی اور آرٹ مووی بنے گی تو وہ قدرے سنجیدہ اورموضوعاتی ہوگی اور دونوں کے ناظربھی الگ الگ ہوں گے۔ پاکستان میں زیادہ تر کمرشل فلمیں ہی کامیاب رہی ہیں جن میں اپنے وقت کے حساب سے ایک مکمل فلم کے تمام اجزاء موجود تھے۔ وحید مراد، ندیم ، شبنم، محمد علی، بابرہ شریف سب گلیمرائزڈ کمرشل فلموں سے ہی سپر اسٹار بنے تھے پھرآج کی انڈسٹری پراعتراض کیوں ہورہے ہیں؟۔
جوچیز قابل اعتراض ہے وہ کمزور کہانی اورکاسٹنگ ہے۔ تقریباً ساری فلمیں بالی وڈ موویزکا چربہ بنائی جارہی ہیں جن میں نہ کوئی نیا پن ہے اور نہ ہی دیکھنے والے کو باندھے رکھنے کی کوئی وجہ ۔ کامیڈی کے نام پراخلاق سوز مکالمے اور حرکات فلم کا سارا تاثرخراب کردیتے ہیں اورلگتا ہے کہانی لکھنے والوں کے پاس آئیڈیا کی کمی ہے اور بنانے والوں کا بھی مقصد اچھوتے خیال کے بجائے کم وقت میں جلد بازی کا شکارکمزور پروڈکشن پیش کرنا ہے اور پھر ایسی ناقص فلم میں گھسے پٹے چہروں کا ہونا بھی لازمی ہےجو سونے پہ سہاگہ کا کام کرتا ہے۔ اس صورتحال میں بھی جو لوگ ایسی خامیوں پر تاویل کا پردہ ڈالنے کی سعی میں مصروف ہیں وہ ایسے نادان دوست ہیں جو پاکستانی سینما کو لے ڈوبیں گے۔
سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ فلم کے بجائے دو ڈھائی گھنٹے پرمحیط ڈرامہ یا ٹیلی فلم ہے جو ریلیزکی جارہی ہے۔ اسکا تدارک لازمی ہےتاکہ سینیما جاکرفیچر فلم ہی دیکھنے کو ملے نا کہ فضول شکنجوں میں کسی ہوئی ناقص پیشکش۔ اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہم ابتدائی مراحل میں ہونے کے باعث دوسرے ممالک سے اس شعبے میں بہت پیچھے ہیں لیکن پھربھی کوشش ہونی چاہئے کہ ایک مناسب حد میں رہتے ہوئے تمام لوازمات کے ساتھ بین الاقوامی معیار کی فلم بنے جس میں اداکاربھی نئے ہوں تاکہ ناظرین بورنہ ہوں اور نہ ہی مکالموں میں لچرپن اور پھکڑپن ہوکہ فلم بین کو ناگوارگزرے۔
کپڑوں پر بے جا اعتراض کے بجائے فلم کے کمزور پہلوؤں پرجائزتنقید ہونی چاہئے تاکہ ان خامیوں پرقابو پاکر معیاری اورتکنیکی اعتبارسےمضبوط فلم سامنے آئے۔ فلم انٹرٹینمنٹ کا ایک میڈیم ہے اسے اسی تناظر میں دیکھئےاس میں سے خواہ مخواہ کی مذہبی جہتیں نکالنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔